29 Mar, 2024 | 19 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2819

June 11, 2021

ہمارےہاں مساجد میں ختم قران کےموقع پر طعام یا شیرینی مٹھائی وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس میں بعض چھوٹی تراویح کی جگہیں ہوتی ہیں جہاں کوئی ایک فرد یا کچھ مخصوص افراد اس کا اہتمام کرتے ہیں جس کے جواز کا فتوی آپ کےہاں سے دیا جاتا ہے۔۔۔ لیکن اسی کے تسلسل میں بڑی مساجد بالخصوص غریب آبادیوں کی مساجد میں بھی اس کا اہتمام کیا جاتا ہے جہاں کوئی ایک فرد یا کچھ مخصوص افراد یہ استطاعت نہیں رکھتے تو اس کے لیے عوام سے چندہ کیا جاتا ہے اور مسجد میں اعلانات بھی کیے جاتے ہیں، جس کی مندرجہ بالا صورتیں دیکھی گئی ہیں: 1. لوگوں پہ کوئی مخصوص رقم نہیں باندھی جاتی ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق دے سکتا ہے لیکن اس کا باقاعدہ اعلان مسجد سے کیا جاتا ہے اور چندہ کی جھولی چلائی جاتی ہے۔ 2. چندہ کے ساتھ ساتھ باقاعدہ فی گھر کے ساتھ ایک رقم مخصوص کر دی جاتی ہے جو ان کو دینا لازم ہے ، اگر بلفرض اس میں لازمی دینے کا عنصر منہا بھی کر دیا جائے تو بھی یہ بات ایک عمومی سمجھ میں آنے والی ہے کہ اگر کوئی شخص نہیں دے گا تو یقینا اس کی اہمیت امام مسجد یا منتظمین کے نزدیک گر جائے گی تو در حقیقت تو وہ بھی اس کا پابند ہی ہوتا ہے ۔ اور ان سب کے دفاع میں جواز کا فتوی اور لوگوں کی بھرپور شرکت اور اس کے نتیجے میں بیان کا زیادہ لوگوں تک پہنچنا ، یہ دو حکمتیں بتائی جاتی ہیں۔ اب ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکم ارشاد فرما دیں کہ: 1. مندرجہ بالا دو صورتوں میں کیے گئے اہتمام کی حیثیت کیا ہے ؟ 2. ان صورتوں دی گئی رقم کا کیا حکم ہے ؟نیز ان صورتوں میں دی جانے والی رقم پر ثواب ملے گا کہ نہیں؟

Answer #: 2819

الجواب حامدا ومصلیا

  1. تراویح میں تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے، اگر ختم  پر مٹھائی تقسیم کرنے  کے لیے لوگوں کو چندہ دینے پر مجبور کیا جاتا ہو  یا بچوں کا  رش اور شوروغل ہوتا ہو، مسجد کا فرش خراب ہوتا ہو یا اسے لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو تو اس کا ترک کردینا ضروری ہے، اور اگر  یہ مفاسد نہ پائے جائیں، بلکہ کوئی  شخص اپنی  خوشی سے،  چندہ کیے بغیر  مٹھائی تقسیم کردے یا امام کے لیے لے آئے  اور اسے لازم نہ سمجھے تو اس میں مضائقہ نہیں ہے، ایسی صورت میں  بہتر یہ ہے کہ خشک چیز تقسیم کی جائے؛ تاکہ مسجد کا فرش وغیرہ خراب نہ ہو اور مسجد کے اندر تقسیم کرنے کے بجائے دروازے پر تقسیم کردی جائے۔ (مستفاد : فتاوی عثمانی: 1/ 102، فتاوی رحیمیہ:  6/243)

لہذا صورت  مسؤلہ میں  جبری چندہ سے  مٹھائی تقسیم کرنا جائز نہیں ہے ، اس سے مکمل اجتناب کیا جائے۔

  1. تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر مٹھائی تقسیم کرنے کا مستقل اجر وثواب کتابوں میں موجود نہیں ہے، اور اسے مستقل طور پر فضیلت کا باعث سمجھ کر تقسیم بھی نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم اگر کوئی  شخص ریا ونمود کے بغیر خلوصِ نیت کے ساتھ تکمیلِ قرآنِ کریم کے موقع پر (جب کہ شرکاء عموماً دعا میں شرکت کرتے ہیں اور عبادت میں شریک ہوتے ہیں) شیرینی یا کھانے کا انتظام کرے کہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بندے کچھ کھاپی کر خوش ہوجائیں اور اللہ تعالیٰ مجھے اس پر اجر عطا فرمائیں تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پر اجر و ثواب عطا فرمائیں گے۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ