19 Apr, 2024 | 10 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2863

September 21, 2021

اسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کیا اسلام میں ڈاف (daff) بجھانا جائز ہے؟

Answer #: 2863

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ کیا اسلام میں دف (daff) بجانا جائز ہے؟

الجواب حامدا ومصلیا

جس قسم کا دف بجانے کی شرعاً  گنجائش ہے ،اسکی تعریف یہ ہے: 

’’دف ایک طرف سے بند ہوتا ہے جس کو بجایا جاتا ہے، اور دوسری طرف سے کھلا ہوتا ہے اور اس میں گھنگھرو یا چھن چھن کرنے والی کوئی چیز نہ ہو‘‘

لہذا جس دف کی بناوٹ مذکورہ تعریف کے مطابق درست ہو ،ان میں درج ذیل شرائط کا اہتمام کیا جائے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے۔

1۔۔۔ دف بلکل سادہ ہو، اس میں کسی قسم کا ساز یعنی گھنگھرو یا چھن چھن کرنے والی کوئی چیز نہ ہو۔

2۔۔۔  اس کو گانے وغیرہ کے طرز پر نہ بجایا جائے جس سے کیف و مستی پیدا ہو۔

3۔۔۔  دف بجانے والی یا گیت گانے والی چھوٹی بچیاں ہوں اور وہ پیشہ ورانہ طور پر گانا گانے والی نہ ہوں، مردوں کے لیے  دف بجانا عورتوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے  جائز نہیں  ہے ۔

4۔۔۔گیت کا مضمون غیر شرعی نہ ہوں ۔

5۔۔۔ تھوڑی دیر تک بجایا جائے۔

ایسا دف  صرف اعلانِ نکاح ، ولیمہ ، عید اور دیگر شرعی خوشی کے مواقع پر بجایا جائے تو مذکورہ بالا حدود وقیود کے ساتھ گنجائش ہے۔

البتہ موجودہ دور میں جو آلہ دف کے نام سے معروف ہے جس میں اسٹیل کی چھوٹی چھوٹی پلیٹیں لگی ہوئی ہوتی ہیں جس سے ایک خاص قسم کے ساز کی آواز پیدا ہوتی ہے، یہ اگرچہ شکلاً دف میں داخل ہوجائیں، مگر چوں کہ ان میں گانا، باجا ساز وغیرہ پایا جاتا ہے اس لیے جائز نہیں ہے۔

مخصوص مواقع  پر ساده دف بجانے كے  جواز كے دلائل یہ ہیں:

حضرت عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ابوبكر رضى اللہ تعالى عنہ ان كے پاس آئے تو اس وقت دو لڑكياں منى كے ايام ميں دف بجا رہى تھيں، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كپڑا اوڑھ كر ليٹے ہوئے تھے، چنانچہ ابوبكر رضى اللہ تعالى عنہ نے ان دونوں لڑكيوں كو ڈانٹا اور منع كيا، تو رسول كريم ﷺ نے اپنے چہرہ سے كپڑا اتارا اور فرمانے لگے:

" اے ابو بكر انہيں كچھ نہ كہو يہ عيد كے دن ہيں، اور يہ منى كے ايام ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 944 ) صحيح مسلم حديث نمبر( 892 )

حضرت  ربيع بنت معوذ بن عفراء رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميرى شادى كے موقع پر نبى كريم ﷺ آئے اور تيرى طرح ہى ميرے بستر پر بيٹھ گئے، تو ہمارى چھوٹى بچيوں نے دف بجانا شروع كر دى اور بدر كے موقع پر قتل ہونے والے ميرے بزرگوں كا مرثيہ پڑھتے ہوئے ايك بچى كہنے لگى:اور ہم ميں وہ نبى ہے جو كل كى بات كا علم ركھتا ہے،تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:" يہ بات نہ كہو، بلكہ اس سے پہلے جو باتيں كہہ رہى تھیں وہ كہتى رہو "صحيح بخارى حديث نمبر ( 4852 )

حضرت  بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ايك معركہ ميں گئے اور جب واپس آئے تو ايك سياہ رنگ كى بچى آ كر كہنے لگى:

اے اللہ تعالى كے رسول ﷺ ميں نے نذر مانى تھى كہ اگر آپ كو اللہ تعالى نے صحيح ركھا تو ميں آپ كے سامنے دف بجاؤنگى اور اشعار گاؤنگى .

تو رسول كريم ﷺ نے اسے فرمايا:" اگر تم نے نذر مانى تھى تو پھر دف بجا لو، وگرنہ نہيں "

تو وہ دف بجانے لگى، اور اسى اثناء ميں ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ وہاں آ گئے اور وہ دف بجا رہى تھى، اور پھر على رضى اللہ تعالى عنہ آ گئے تو وہ ابھى دف بجا رہى تھى، اور پھر عثمان رضى اللہ تعالى عنہ بھى آ گئے تو وہ دف بجاتى رہى، اور پھر عمر رضى اللہ تعالى عنہ داخل ہوئے تو اس نے دف اپنے سرين كے نيچے چھپا كر اس كے اوپر بيٹھ گئى.

تو رسول كريم ﷺ فرمانے لگے:" اے عمر بلا شبہ شيطان تجھ سے خوفزدہ رہتا اور ڈرتا ہے، ميں بيٹھا ہوا تھا اور يہ بچى دف بجاتى رہى، اور ابوبكر رضى اللہ تعالى عنہ آئے تو يہ دف بجاتى رہى، اور پھر على آئے تو بھى بجاتى رہى، اور پھر عثمان آئے تو بھى بجاتى رہى، اے عمر جب تم آئے تو اس نے دف ركھ دى "(سنن ترمذى : 3690  )

فی مسند احمد: ۲۲۲۱۸)

إن الله بعثني رحمة وهدیً للعالمین وأمرني أن أمحق المزامیر والکنارات.

قال في البزازیة: استماع صوت الملاهي کضرب قصب ونحوہ حرام لقوله ؑ:"استماع الملاهي معصیة والجلوس علیها فسق والتلذذ بها کفر" أي: بالنعمة (الدر المختار وحاشية ابن عابدين: ۹/ ۵۰۴) وفي حاشية ابن عابدين: لا بأس بالدف في العرس لیشتهر وفي السراجیة: ہذا إذا لم یکن له جلاجل ولم یضرب علی هیئة التطرب" (حاشية ابن عابدين: ۹/۵۰۵) والتفصیل في أحکام القرآن تحت قوله تعالی: ومن الناس من یشتري لهو الحدیث الآیة.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ