29 Mar, 2024 | 19 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2866

October 09, 2021

اسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ میرا سوال یہ ہے کہ میں میڈیکل شعبے سے تعلق رکھتی ہو اور میں گورنمنٹ جاب کرتی ہوں میری جاب نومسلم یعنی کہ غیر مسلم میں ہے وہاں مجھے نا محرم مرد کو دیکھنا پڑتا ہے ان کو چیک کرنا ہے ان کو ہاتھ لگانا پڑتا ہے کیا یہ ٹھیک بات ہے اور میں اپنی جاب سے خوش نہیں ہوں کیونکہ وہاں پر بہت بے پردگی ہوتی ہے۔ یہ جاب میں اپنی مرضی سے نہیں کر رہی مجھے گھر والے فورس کرتے ہیں کرنے کے لئے لیے تو کیا اگر میں یہ گروپ چھوڑ دوں تو کیا اپنے والدین کی نافرمانی کروں گی گی ہو اور میں دین کا کام کرنا چاہتی ۔ جاب کی وجہ سے میری دینداری بہت زیادہ متاثر ہو رہی ہے میری نمازیں میرے باقی سارے معاملات بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔ کیا اس طرح میرا غیر محرم کو دیکھنا جائز ہے کیا اگر میں جاب چھوڑ دوں تو والدین کی نافرمانی ہوگی حلانکہ اس جاب کے علاوہ میں استانی کی جاب پردے کے ساتھ کر سکتی ہوں میری رائنمای فرمائیں جزاک اللہ خیرا کثیرا

Answer #: 2866

الجواب حامدا ومصلیا

         واضح رہے  کہ عام حالات میں شریعت نے عورت کو گھر کی چار دیواری میں رہنے کی ترغیب دی ہے اور یہی اس کی فطرت ہے اورا سی میں اس کی عزت و آبرو ہے کہ وہ گھر میں اندر ہی کام انجام دے اور اپنے بچوں کی تربیت کا فریضہ سر انجام دے کیونکہ وہی اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرسکتی ہے اور انہیں تعلیم دے سکتی ہے اور بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلے خصوصاً ہمارے اس زمانے میں جب کہ ہر طرف فتنوں کا سیلاب امڈا ہوا ہے اور بےحیائی وبے پردگی کا دور دورہ ہے اور مردوں عورتوں کا بے محابا اختلاط عام ہے اور گھر سے  باہر ملازمت کرنے کی صورت میں عورت کا ان غیر شرعی امور سے خود کو بچانا نہایت دشوار ہے البتہ شریعت نے بعض شرائط کے ساتھ عورت کو ملازمت کی اجازت دی ہے لیکن اس کی ملازمت کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ اس کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لئے ملازمت کی واقعی ضرورت  ہے مثلاً کوئی عورت ایسی ہے کہ اس کے اخراجات کی ذمہ داری برداشت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور وہ اپنے نان ونفقہ کی غرض سے گھر سے باہر نکل کر کام کاج کرتی ہے۔دوسری صورت یہ ہے کہ اسے ایسی کوئی  ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کے نان ونفقہ کا انتظام ہے،  اس کے باوجود وہ باہر نکل کر ملازمت کرتی ہے۔

            پہلی صورت میں تو گھر سے نکل کر ملازمت کرنا درست ہے بشرطیکہ وہ مندرجہ ذیل آداب وشرائط کی پابندی کرے:

۱۔۔۔ مکمل شرعی پردہ کے ساتھ باہر نکلے نیز اس کی ملازمت عورتوں یا کم سن بچوں کے شعبہ میں ہو، بالغ اجنبی مردوں کا اختلاط نہ ہو۔

۲۔۔۔باہر بناؤ سنگھار نہ کرے ،خوشبو استعمال نہ کرے اور نہ بجتا ہوا زیور پہنے۔

۳۔۔۔ راستہ میں آتے جاتے ہوئے اور دورانِ ملازمت غیر محارم سے اختلاط نہ ہو۔

۴۔۔۔گھر پر رہتے ہوئے کوئی ذریعہ معاش نہ ہو۔

۵۔۔۔اس کی ملازمت جائز اور اس سے حاصل ہونی والی آمدنی حلال ہو۔

۶۔۔۔اگر ولی  اور سرپرست موجود ہو تو ملازمت اس کی اجازت سے ہو اور اگر شادی شدہ ہے تو شوہر کی اجازت سے ہو،  کیونکہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔

۷۔۔۔بچوں اور متعلقین کے حقوق پامال نہ ہوں۔

            دوسری صورت جس میں عورت نان ونفقہ کے لئے ملازمت کی محتاج نہ ہو اس میں بھی اگرچہ مذکورہ بالا شرائط  کی پابندی کے ساتھ ملازمت کی گنجائش ہے تاہم اس پُر فتن زمانہ  میں ملازمت نہ کرنے میں احتیاط ہے۔

لہذا صورت مسؤلہ میں آپ  خود اپنے حالات میں غورکرلیں کہ آپ کو ملازمت کی ضرورت کس درجہ کی ہے اور ملازمت اختیار کرنے میں کیا کیا امور ناجائز وگناہ کے اختیار کرنے پڑیں گے، اگر  واقعی معاشی تنگی کا سامنا ہونے کی بناپر ملازمت ناگزیر ہے تو بوقت ضرورت  مذکورہ بالا شرائط کی رعایت کرتے ہوئےاس کو چھوڑ کر کوئی دوسری ملازمت اختیار کرلیں،  اور اس ملازمت میں مشکلات کے بارے میں اپنے والدین کو بھی  بتلادیں ، پھر  جب دوسری ملازمت مل جائے اس  جگہ کو چھوڑ دیں اس میں والدین کی نافرمانی نہیں ہوگی ۔

احکام القرآن-للمفتی محمد شفيع-(ج٣/٤٧١)ط ادارةالقران کراچی

وبالجملة فاتفقت مذاهب الفقهاء وجمهور الامة علی انه لايجوز للنساء الشواب کشف الوجوه والاکف بين الاجانب،  ويستثنی منه العجائز لقوله تعالیٰ:’’القواعد من النساء‘‘ الاية(النور:60) والضرورات مستثناة فی الجميع بالاجماع. فلم يبق للحجاب المشروع الا الدرجتان الاوليتان، الاولیٰ القرار فی البيوت وحجاب الاشخاص وهو الاصل المطلوب، والثانية خروجهن لحوائجهن مستترات بالبراقع والجلابيب وهو الرخصة للحاجة. ولاشک ان کلتا الدرجتين منه مشروعتان، غير ان الغرض من الحجاب لما کان سد ذرائع الفتنة وفی خروجهن من البيوت ولو للحوائج والضرورات کان مظنة فتنة شرط عليهن الله ورسوله صلی الله عليه وسلم شروطا يجب عليهن التزامها عند الخروج:

ان يترکن الطيب ولباس الزينة عند الخروج، بل يخرجن وهن تفلات کما مر فی کثير من روايات الحديث مما ذکرنا.

ان لايتحلين حلية فيها جرس يصوت بنفسه، ( عن أبي هريرة أنه لقي امرأة فوجد منها ريح إعصار طيبة فقال لها أبو هريرة المسجد تريدين قالت نعم قال وله تطيبت قالت نعم قال أبو هريرة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من امرأة تطيبت للمسجد فيقبل الله لها صلاة حتى تغتسل منه اغتسالها من الجنابة فاذهبي فاغتسلي. في  مسند أحمد- (ج 13 / ص 339)-رقم7958 - موافق للمطبوع)

ان لايضربن بارجلهن ليصوت الخلخال وامثاله من حليهن، کما هو منصوص القران.

ان لا يتبخترن فی المشية کيلا تکون سببا للفتنة( عن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم قال المرأة عورة فإذا خرجت استشرفها الشيطان. سنن الترمذى – كتاب  الرضاع)

ان لاتمشين فی وسط الطريق بل حواشيها، (قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ليس للنساء وسط الطريق. رواه البيهقي عن أبي عمرو ابن حماش وعن أبي هريرة .(كنز 8/273)

ان يدنين عليهن من جلابیبهن بحیث لایظهر شئ منهن الا عینا واحدة لرؤیة الطریق، کما مر من تفسیر ابن عباس لهذه الاٰیة.

ان لایخرجن الا باذن ازواجهن، (أيما امرأة خرجت من بيتها بغير إذن زوجها كانت فى سخط الله حتى ترجع إلى بيتها أو يرضى عنها زوجها-(كنز 8/261)

ان لایتکلمن احدا الا باذن ازواجهن، (عن رضی الله عنه قال:نهى رسول الله صلی الله عليه وسلم ان تکلم النساء لا باذن ازواجهن-رواه الطبرانی فی الکبیر-ثبات الستور من الکنز)

واذا تکلمن احدا من الاجانب عند الضرورة فلایخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض، کما هو منصوص الکتاب.

وان يغضضن ابصارهن عن الاجانب عند الخروج.

ان لایلجن فی مزاحم الرجال کمایستفاد من حدیث ابن عمر رضی الله عنه، لو ترکنا هذا الباب للنساء(رقم25). فهذه احد عشر شرطا وامثالها یجب علی المرأة التزامها عند خروجها من البیت للحوائج والضروریات، فحیث فقدت الشروط مربنعن من الخروج اصلا.

حاشية ابن عابدين - (ج 3 / ص 536) ط سعید

 قال في الفتح والحاصل أن مدار حل خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها

البحر الرائق - (ج ٤/ ص ٢٣٧) ط  داراحياء التراث العربی

( قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل ) لتكتسب لأجل قيام المعيشة ؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلا يحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلا ولا نهارا . والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير

المحيط البرهاني - مسائل العدة- (ج ٥ / ص ٢٣٦)- ط ادارة القرآن

وعسى لا تجد من يسوي أمرها،  فتحتاج إلى الخروج لتسوية أمر معيشتها غير أن أمر المعيشة عادة تسوى بالنهار دون الليالي،  فأبيح لها الخروج بالنهار دون الليالي.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ