25 Apr, 2024 | 16 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2889

December 20, 2021

Assalamu Alaikum WRBT. Aik khatoon faut huin. Inki shadi nahin hui thi. In ki chauri hui chezzon main kuch naqad raqam, prize bonds, zewar, istamal-shuda aur gahir istamal-shuda bartan/gharailu istamal ki cheezain, silay/un-silay kapray, aur walid ki wirasat walay wahid ghar ka hissa shamil hain. Walid ki wirasat walay ghar kay hisay taqseem nahin huay thay aur yeh khatoon apni walidah aur bhaiyon kay saath isi ghar main rahti theen. In khatoon kay pasmandagan main unki walida, aik shahdi-shuda behan, aik ghair shadi-shudah bhai, aur aik shadi-shuda bhai shamil hain. In khatoon ki uper batai gai cheezon main say kon si ashya wirasat main shumar hon gi aur in ki taqseem kaisay ho gi? Rahnumai atta frama dain. Jazak Allah Khair.

Answer #: 2889

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! ایک خاتون فوت ہوئی ہیں، ان کی شادی نہیں تھی،ان کی چھوڑی ہوئی چیزوں میں کچھ نقد رقم، پرائز بانڈ، زیور، استعمال شدہ اور غیر استعمال شدہ برتن، گھریلو استعمال شدہ چیزیں، سلے ان سلے کپڑے اور والد کی وراثت والے واحد گھر کا حصہ شامل ہیں، والد کی وراثت والے گھر کے حصے تقسیم نہیں ہوئے تھےاور یہ خاتون اپنی والدہ اور بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہتی تھیں، ان خاتون کے پسماندگان میں ان کی والدہ، ایک شادی شدہ بہن، ایک غیر شادی شدہ بھائی، ایک شادی شدہ بھائی شامل ہیں، ان خاتون کی اوپر بتائی گئی چیزوں میں سے کون سی اشیاء وراثت میں شمار ہونگی اور ان کی تقسیم کیسے ہوگی؟ راہنمائی عطا فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا

الجواب حامدا ومصلیا

مرحومہ نے  انتقال کے وقت اپنی ملکیت میں جو کچھ  مال، جائیداد، سونا، چاندی، نقدی، ہر قسم کا چھوٹا بڑا گھریلو ساز وسامان، گھریلو استعمال کی چیزیں، استعمال شدہ اور غیر استعمال شدہ برتن، سلےاوران سلے کپڑے جو کچھ چھوڑا ہو یہ سب مرحومہ کا ترکہ ہے۔

  اس سے سب سے پہلے مرحومہ کے کفن دفن کے متوسط اخراجات نکالے جائیں، اگر وہ اخراجات کسی نے اپنی طرف سے بطور ِ احسان ادا کیے ہوں، تو اب یہ کل ترکہ سے نہیں نکالے جائیں گے ۔اس کے بعد دیکھیں اگر مرحومہ پر کسی کا واجب الأداء قرضہ ہو تو بقیہ ترکہ سے  قرض ادا کیا جائے، اس کے بعد دیکھیں اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو بقیہ ترکہ کی ایک تہائی تک اس پر عمل کیا جائے۔

اس کے بعد باقی ترکہ کے کل چھ (6) برابر حصے کرکےاس میں سے ایک حصہ والدہ کو اور ایک حصہ بہن کو اور ہربھائی کو دو، دو حصے دیے جائیں۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ