Question #: 3032
October 24, 2022
Answer #: 3032
Fatwa #: 3027, 3032
الجواب حامدا ومصلیا
صورت مسؤلہ میں اگر آپ کے والد نے اپنی زمین اپنی زندگی میں ہی اپنے بیٹوں کو دے دی تھی اور ان کو اپنی زندگی میں ہی زمین پر قبضہ دے دیا تھا تو اس صورت میں آپ کے والد نے اپنی بیٹیوں کو جائیداد سے محروم کرکے اپنی آخرت خراب کی ہے لیکن اس کے باوجود بیٹے اب اس جائداد کے مالک بن گئے ہیں لہذا اُن کی اجازت کے بغیر اس زمین سے غلہ، اناج وغیرہ لینا جائز نہیں ہے۔
اگر آپ کے والد نے زندگی میں اپنی جائداد اپنے بیٹوں کے نام کر دی تھی لیکن اس کو تقسیم کرکے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو نہیں دی تھی اور بیٹوں نے والد کی وفات کے بعد اس کو تقسیم کیا ہو، تو اس صورت میں اس زمین میں آپ کا بھی حق ہے اور اپنے حق کے بقدر اس زمین کا غلہ وغیرہ اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر لے سکتے ہیں۔ اور اس صورت میں بھائیوں کے لیے زمین کا سارا غلہ خود رکھ لینا اور بہنوں کو کچھ نہ دینا حرام ہے، بلکہ بھائیوں پر لازم ہے کہ وہ بہنوں کو اپنے والد کی جائیداد سے حصہ دیں ۔
حاشية ابن عابدين = رد المحتار ط الحلبي (4/ 95):
قوله وأطلق الشافعي أخذ خلاف الجنس) أي من النقود أو العروض؛ لأن النقود يجوز أخذها عندنا على ما قررناه آنفا. قال القهستاني: وفيه إيماء إلى أن له أن يأخذ من خلاف جنسه عند المجانسة في المالية، وهذا أوسع فيجوز الأخذ به وإن لم يكن مذهبنا، فإن الإنسان يعذر في العمل به عند الضرورة كما في الزاهدي. اهـ. قلت: وهذا ما قالوا إنه لا مستند له، لكن رأيت في شرح نظم الكنز للمقدسي من كتاب الحجر. قال: ونقل جد والدي لأمه الجمال الأشقر في شرحه للقدوري أن عدم جواز الأخذ من خلاف الجنس كان في زمانهم لمطاوعتهم في الحقوق. والفتوى اليوم على جواز الأخذ عند القدرة من أي مال كان لا سيما في ديارنا لمداومتهم للعقوق.
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ