25 Apr, 2024 | 16 Shawwal, 1445 AH

Question #: 3088

February 04, 2023

kya baalon par keratin ka ilaaj karwaya jaa sakta hai? kin kin cheezon ka istemaal karna haram hai baalon par?

Answer #: 3088

الجواب حامدا ومصلیا

  1. اگر بالوں کو سیدھا کروانے کے ساتھ  کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب نہ کیا جائے، مثلاً: فیشن کے طور پر بال نہ کٹوائے جائیں تو فی نفسہ بالوں کو سیدھا کروانے  کی گنجائش ہے، البتہ ایلومینیم فوائل کا استعمال صحت کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے ، اس لیے ایسی کریم کا  استعمال  مضر صحت ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔
  2. واضح رہے کہ اگر کسی چیز کا ایسا جسم اور ایسی تہ نہیں ہے جو اعضاء وضو و غسل تک پانی پہنچنے سے مانع ہو تو اس چیز کے لگے رہنے کے باوجود وضو و غسل صحیح ہو جاتا ہے۔صورتِ مسئولہ میں کیراٹن ٹریٹمنٹ ( پروٹین کریم) کی جو تفصیل  ہمیں معلوم ہوئی ہے  کہ اس کے بعد بال پانی لگنے سے گیلے بھی ہوتے ہیں اور اس کو دوبارہ سوکھنے میں بھی معمول کے مطابق وقت لگتا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کریم سٹریٹنر(Straightener) سے سیل کیے جانے کے بعد بھی بالوں تک پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی اور پانی بالوں تک پہنچ جاتا ہے، لہذا مذکورہ کریم لگانے سے وضو اور غسل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ البتہ  اکثر محققین کی  یہ رائے  ہے کیراٹین کا علاج کرواناکئی بیماریوں کو جنم دیتا ہے ، جیسے سردرد، چکر آنا، گلے کی سوزش، کھانسی ،گھبراہٹ، سینے میں درد ، قے کا آنا اور آنکھوں کی جلن شامل ہیں۔ اس لیے اس علاج   سے اجتناب کرنا چاہیے اور بالوں کو صحت مند بنانے کے لیے قدرتی (Natural) چیزوں کو استعمال کرنا چاہیے، کیمیکل(Chemical) سے اجتناب کرنا چاہیے۔

في الدر المختار:

"(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه به يفتى (ودرن ووسخ) عطف تفسير وكذا دهن ودسومة (وتراب) وطين ولو (في ظفر مطلقا) أي قرويا أو مدنيا في الأصح بخلاف نحو عجين."

وفي الشامية:

"(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللا بالضرورة. قال في شرحها ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن اهـ لكن يرد عليه أن الواجب الغسل وهو إسالة الماء مع التقاطر كما مر في أركان الوضوء. والظاهر أن هذه الأشياء تمنع الإسالة فالأظهر التعليل بالضرورة، ولكن قد يقال أيضا إن الضرورة في درن الأنف أشد منها في الحناء والطين لندورهما بالنسبة إليه مع أنه تقدم أنه يجب غسل ما تحته فينبغي عدم الوجوب فيه أيضا تأمل".

(كتاب الطهارة، 1/ 154، ط: سعید)

وفي حاشیة الطحطاوی علی الدر المختار:

"قوله:  (ولو جرمه) أي الحناء لكن لا بد أن يصل الماء تحته وأما إن لم يصل فلا تصح الطهارة ولذا قال في البحر: ولو ألزقت المرأة رأسها بالطيب بحيث لا يصل الماء إلى أصول الشعر وجب عليها إزالته".           (كتاب الطهارة، 1/ 464، ط: دار الکتب العلمية)

وفي الجامع الصغير:

سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي".

(‌‌كتاب الطهارة ،الباب الأول في الوضوء ،الفصل الأول في فرائض الوضوء، 1/ 4)

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ