29 Mar, 2024 | 19 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2524

November 21, 2019

Asslam alikum wr wb 1) kia hazrat fatima RA ka jahez tha? Jahez ka shari hukam kia hai? Mere waldain mjhe jahez main sab dena chahty hain taqreeban siwa ghar aur gari k. Is hawalay se rahnumai farma dijeyay. 2) shadi ka sunnat tarika kia hai? Kia beti ka khana khilaf e sunnat hai. Agar susral walay door se aen to is hawaly se kia hukam hai. Kitny log zyad se zyda bulany chayen. ?

Answer #: 2524

السلام علیکم !

1.   کیا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز تھا؟ جہیز کا شرعی حکم کیا ہے؟

2.    میرے والدین مجھے جہیز میں تقریباً سب دینا چاہتے ہیں سوائے گھر اور گاڑی کے۔ اس حوالے سے شرعی راہنمائی فرما دیجیے۔

3.    شادی کا سنت طریقہ کیا ہے؟

4.    کیا بیٹی کا کھانا خلافِ سنت ہے۔ اگر سسرال والے دور سے آئیں تو اس حوالے سے کیا حکم ہے؟

5.    کتنے لوگ زیادہ سے زیادہ بلانے چاہیے؟

الجواب حامدا ومصلیا

1 ،2  ۔۔۔لڑکی کو بوقتِ شادی کچھ ضروری  چیزیں بغیرنام ونمودکے  سادگی سے جہیز میں  دے دینا سنت سے ثابت ہے  اور رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی  حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا کو شادی کے وقت جہیز دیا تھا۔لہٰذااگرکوئی اس طریقہ کے مطابق اپنی بیٹی کوجہیز دے توجائزہے۔

لیکن اصول ِشریعت کے لحاظ سے  جو چیز جس درجہ میں ثابت   ہو  اس کو اسی  درجہ میں رکھنا ضروری ہے، شریعت میں  جہیز دینے کو نہ نکاح کا کوئی  لازمی  جزوسمجھا گیا ہے نہ اسکی  ایسی پابندی کی گئی کہ  تنگی ترشی کی ہر حالت میں  جہیز ضرور ہی دیا جائے  اور اسکے بغیر لڑکی کی شادی محال سمجھی جائے اور نہ جہیز کی مقدار اتنی زیادہ   رکھی گئی جتنی آجکل معمول بن گئی ہے۔ ہمارے زمانے میں  جہیز کو جس طرح نکاح کا لازمی جزو قرار دیدیا گیا  اسکے بغیر لڑکی کی شادی کو ناک کٹوانے کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے اور جس طرح اسکی  مقدار  میں نام ونمود اور دکھلاوے کی خاطر روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے کہ غریب سے غریب انسان قرض لے لے کر، رشوت اور   مالِ حرام استعمال کرکے اس مقدار کو پورا کرنا ضروری سمجھتا ہے اور جب تک اس پر قدرت نہ ہو لڑکیاں  بغیر نکاح کےبیٹھی رہتی رہیں۔اوراس سلسلے میں گھٹیابات یہ ہے کہ لڑکی کاشوہریااس کے سسرال کے لوگ جہیزپر نظر رکھتے ہیں اوراگرکسی لڑکی کوجہیز نہ دیاجائے یاکم دیاجائے تو اس کوسسرال والے برامناتے ہیں یالڑکی کو مطعون کرتے ہیں  یہ طرزِ عمل سنت کے قطعی خلاف ہے اور اس سے بے شمار معاشرتی  خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں لہذا اسکی اصلاح کی اشد ضرورت ہے ۔

حکیم الامت مجددالملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب قدس سرّہ  تحریر فرماتےہیں کہ:

 جہیز میں تین باتوں  کا  خیال رکھنا چاہئے:

ü  اختصار،یعنی  گنجائش سے زیادہ نہ ہو۔

ü  ضرورت کا لحاظ کہ جن چیزوں کی سرِدست ضرورت ہو وہ دینی چاہیں۔

ü  اعلان و اظہار نہ ہونا چاہئے کیونکہ یہ تو اولاد کے ساتھ  سلوک واحسان ہے، دوسروں کو دکھلانے کی کیا ضرورت ہے…؟؟

 ( بحوالہ:اصلاح الرسوم)

سنن ابن ماجه (2 / 1390)

 حدثنا واصل بن عبد الأعلى. حدثنا محمد بن فضيل عن عطاء بن السائب عن أبيه عن علي أن رسول الله صلى الله عليه و سلم أتى عليا وفاطمة وهما في خميل لهما (والخميل القطيفة البيضاء من الصوف) قد كان رسول الله صلى الله عليه و سلم جهزهما بها ووسادة محشوة إذخرا وقرية.

سنن النسائي (ترقيم أبي غدة) مع أحكام الألباني (6 / 135)

(جهاز الرجل ابنته) أخبرنا نصير بن الفرج قال حدثنا أبو أسامة عن زائدة قال حدثنا عطاء بن السائب عن أبيه عن علي رضي الله عنه قال: جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر.

3۔۔۔نکاح کامسنون طریقہ یہ ہے کہ اگرلڑکی بالغ ہوتواس سے اجازت لے کردومسلمان مردوں یاایک مرد اور دومسلمان عورتوں کوگواہ بناکرایسے آدمی سے اس کانکاح کرادیاجائے جوشرعی اعتبارسے اس کاکفو (ہم پلہ)  ہو اور نکاح کایہ ایجاب وقبول ایسے گواہوں کی موجودگی میں ہوجومسلمان ہوں اوربیک وقت ایجاب وقبول کوسن اورسمجھ رہے ہوں اوراگروسعت ہوتوچھوہارے تقسیم کرادئے جائیں اورمسجدمیں اورجمعہ کے دن نکاح کرنامستحب ہے اور ایجاب وقبول سے پہلے خطبہ پڑھنابھی مستحب ہے ۔

·            شرعاً نکاح کے موقع پربارات لے کر جانا سنت نہیں ہےاورنہ ہی  اِس پر نکاح موقوف ہے،البتہ اگر لڑکے والے کچھ لوگ نکاح کے موقع پر دلہا کے ساتھ لڑکی والوں کےگھرچلے جائیں جس میں لڑکی کے باپ  پرکوئی بوجھ نہ  ہواورلڑکی کے والدین اپنی بچی کے نکاح کے فر یضہ  سے سبکدوش ہونے کی خوشی میں اپنی دلی خوشی سے ان کی اوراپنے دوسرے عزیزوں اوردوستوں کی دعوت کردیں تویہ جائزہے،البتہ لڑکی والوں پر کھانا کھلانے کولازم اورضروری سمجھنااوردعوت نہ دینے کو معیوب سمجھنااوراس کے لئے قرض اور اُدھارلے کراس کی پابندی کرنادرست نہیں ہے۔

·            لڑکی کی رخصتی کاکوئی خاص طریقہ شریعت میں نہیں ہےاورنہ ہی رخصتی کے لئے باپ کاازخوداپنی بیٹی کولڑکے کے گھرچھوڑناکوئی ضروری ہے، بلکہ بغیرکسی نمائش کے اختصاراورسادگی کے ساتھ دولہااور اس کے  گھرکی محرم خواتین یا لڑکی کے گھرکی ایک یا چندخواتین کے ساتھ رخصتی کردیں، چنانچہ حضورﷺ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمانے کے بعدحضرت ام ایمن رضی اللہ عنہاسے فرمایاکہ تم فاطمہ کو حضرت علی کے گھر پہنچادو، چنانچہ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا حضورﷺ کی بیٹی کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھرپہنچا آئیں۔ لہٰذا سادگی کے ساتھ لڑکی کی رخصتی کرنا نہ صرف بہتربلکہ ازروئے حدیث میں اس خیروبرکت          ہے ۔   (بہشتی زیور)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (10 / 92)

قال ابن الهمام ويستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد لكونه عبادة وكونه في يوم الجمعة ا ه وهو إما تفاؤلا للإجتماع أو توقع زيادة الثواب أو لأنه يحصل به كمال الإعلان.

الدر المختار - (3 / 8)

يندب إعلانه وتقديم خطبة وكونه في مسجد يوم جمعة بعاقد رشيد وشهود عدول.

فتح القدير - (6 / 272)

ويستحب مباشرة عقد النكاح في المسجد لأنه عبادة، وكونه في يوم الجمعة.

4۔۔۔نکاح کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کا انتظام کرنا  ولیمہ کی طرح سنت نہیں  ہے، ہاں اگر کوئی نمود ونمائش سے بچتے ہوئے،  کسی قسم کے زبردستی اور خاندانی دباؤ کے بغیر اپنی خوشی ورضا  سے اپنے اعزاء اور مہمانوں کوکھانا کھلائے تو  یہ مہمانوں کا اکرام ہے، اور اس طرح کی دعوت کا کھانا کھانا بارات والوں کے لیے جائز ہے، اور اگر  لڑکی والے   خوشی سے نہ کھلائیں تو زبردستی کرکے دعوت کھانا  جائز نہیں ہوگا۔ اسی طرح لڑکی والوں کی طرف سے باضابطہ ولیمہ کا اہتمام کرنا درست نہیں ہے۔

مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

"لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں" ۔   (کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی  محمودیہ میں ہے

’’جو لوگ لڑکی والوں کے مکان پر مہمان آتے ہیں اور ان کا مقصود شادی میں شرکت کرنا ہے اور ان کو بلایا بھی گیا ہے تو آخر وہ کھانا کہاں جاکر  کھائیں گے!اور اپنے مہمان کو کھلانا  تو شریعت کا حکم ہے، اور حضرت نبی اکرم ﷺ نے تاکید فرمائی ہے‘‘۔  (12/142، باب العروس والولیمہ، ط:فاروقیہ) فقط واللہ اعلم

5۔۔۔ اس میں شریعت کی طرف سے کوئی حد مقرر نہیں  ہے۔ جتنے مرضی بلا سکتے ہیں۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏24‏ جمادى الأول‏، 1441ھ

‏20‏ جنوری‏، 2020ء