25 Apr, 2024 | 16 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2623

June 03, 2020

Assalamualaikum wr wb, Mera ek sawal tha ke kia biwi apne shohR se naraaz ho sakti hai, aur agr hosakti hai toh kitne din tak agar woh uss ko manaye nae. Aur agar ulta woh gussa kar raha hai toh??

Answer #: 2623

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! میرا سوال تھا کہ کیا بیوی اپنے شوہر سے ناراض ہو سکتی ہے، اور اگر ہو سکتی ہے تو کتنے دن تک اگر وہ اس کو منائے نہیں، اور اگر الٹا وہ غصہ کر رہا ہے تو؟؟

الجواب حامدا ومصلیا

اسلام نے جس طرح مرد کے حقوق مقرر کیے ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق مقرر فرمائے ہیں۔ شوہر کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے کہ وہ اپنی مالی حیثیت کے مطابق بیوی کے مصارف کی کفالت کرے۔ کھانے پینے اور پہننے کی ذمہ داری معقول طریقے سے نبھائے۔ اپنی حیثیت کے مطابق اس کے لیے رہائش مہیا کرے، بیمار ہو تو اس کا علاج کرائے، یہ تو وہ بنیادی حقوق ہیں جن کی ادائیگی بہر صورت لازم ہیں۔ لیکن حسن سلوک اس سے زائد چیز ہے۔ اس کا تعلق اس معاشرت، اس رہن سہن، اور اس رویے سے ہے جو شوہر اپنی بیوی کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔ اگر ایک شخص اپنی بیوی کو ہر طرح کی سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ لیکن اسے وقت نہیں دیتا، اس سے خندہ روئی سے پیش نہیں آتا، اس کے میل جول سے محبت کی خوشبو نہیں مہکتی، تو یہ ایک بدسلوکی ہے جس پر اللہ کے ہاں گرفت ہوگی۔ کیونکہ حکم معروف طریقے سے معاشرت کا دیا گیا ہے اس میں یہ سب باتیں شامل ہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہتر انسانوں کے لیے جو معیار ذکر فرمایا ہے وہ حسن کردار کے علاوہ یہ بھی ہے : خیارکم خیارکم باھلہ تم میں بہتر وہ ہیں جو اپنے گھر والوں سے بہتر ہیں ۔ اور آپ کا اسوہ یہ بات سمجھانے کے لیے کافی ہے کہ بیویوں کے ساتھ کس طرح کا رویہ ہونا چاہیے۔ آپ کی نو بیویاں تھیں لیکن ہر بیوی کے ساتھ آپ کا سلوک اور آپ کارویہ مثالی تھا۔ ہر بیوی یہ سمجھتی تھی کہ حضور مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ حالانکہ آپ سب سے محبت کرتے تھے۔ کبھی ایک بیوی کو دوسری بیوی پر ترجیح نہیں دیتے تھے اور کبھی کوئی ایسی بات نہیں فرماتے تھے جس سے کسی بیوی کو شکائت کا موقعہ ملے بلکہ آپ کا بیویوں کے ساتھ طرز عمل اس طرح کا تھا جسے ناز برداری کہنا چاہیے۔ آپ کے گھر میں کسی نے بھنی ہوئی بکرے کی ران بھیجی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت میں پیش کی، آپ نے حضرت عائشہ سے پہلے کھانے کے لیے فرمایا، لیکن حضرت عائشہ کی خواہش تھی کہ حضور پہلے کھائیں بچا ہوا میں کھالوں گی۔ لیکن جب حضور نے اصرار فرمایا تو تعمیل حکم میں حضرت عائشہ نے دانتوں سے ران کو ایک طرف سے کھایا آپ نے ان کی دل جوئی اور ناز برداری کے لیے اسی جگہ سے تناول فرمایا جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے دانتوں کے نشان لگے تھے۔

 اندازہ فرمائیے ! حضور ایک اولوالعزم پیغمبر بھی ہیں اور کائنات میں آپ کا مقام اور مرتبہ سب سے بالا ہے۔ باایں ہمہ آپ کا طرز عمل تمام بیویوں سے اسی طرح کا تھا۔ آپ کے اسی اسوہ حسنہ کا نتیجہ ہے کہ اس امت کے صالح لوگوں نے ہمیشہ اپنے گھر میں بھی آنحضرت کی سنت کو زندہ رکھا ہے۔ اور قرآن کریم نے اپنی بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے اوپر بہت زیادہ زور دیا ہے ، جنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝۱۹

اور ان کے ساتھ بھلے انداز میں زندگی بسر کرو، اور اگر تم انہیں پسند نہ کرتے ہو تو یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرتے ہو اور اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔ ( سورۃ النساء  : ۱۹)

            اسی طرح   بیوی کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ شوہر سے ناراض ہوجائے اور    شوہر سے ناراض ہونے کی صورت میں عورت ہی  کوزیادہ نقصان ہوتا ہے، اس میں عورت کو  کوئی قابلِ اعتبار فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے شوہر سے جو بات منوانی  ہووہ ناراض ہوکر نہ منوائے ، بلکہ پیار و محبت سے منوائے ۔   آپس کے اختلافات کو ختم کرکے ایک دوسرے کو حسن معاشرت کے ساتھ گذر بسر کا نظام بنانا چاہئے ایک دوسرے کی حق تلفی کرنے سے دونوں پر بچنا واجب ہے، بیوی شوہر کو  ناراض نہ کرے۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ نبی کریمﷺکا یہ اِرشاد نقل فرماتے ہیں:

”ثَلَاثٌ لَا تُقْبَلُ لَهُمْ صَلَاةٌ وَلَا يُرْفَعُ لَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ عَمَلٌ:الْعَبْدُ الْآبِقُ مِنْ مَوَالِيهِ حَتَّى يَرْجِعَ فَيَضَعَ يَدَهُ فِي أَيْدِيهِمْ، وَالْمَرْأَةُ السَّاخِطُ عَلَيْهَا زَوْجُهَا حَتَّى يَرْضَى، وَالسَّكْرَانُ حَتَّى يَصْحُوَ“.

ترجمہ: تین افراد ایسے ہیں جن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی اُن کا کوئی عمل آسمان پر اُٹھایا جاتا ہے: ایک وہ غلام جو اپنے مالکان کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہو، جب تک کہ وہ واپس آکر اپنا ہاتھ مالکان کے ہاتھ میں نہ دے دے، دوسری وہ عورت جس کا شوہر اُس سے ناراض ہو یہاں تک کہ وہ راضی نہ ہوجائے، اور تیسرا نشہ میں مبتلا شخص جب کہ وہ صحیح نہ ہوجائے۔(شعب الایمان:5202)

بیوی پر شوہر کا ہر جائز مطالبہ ماننا لازم ہے ، ورنہ گناہ گار ہوگی، میاں بیوی کے رشتے میں شریعت نے شوہر کو بڑا درجہ اور اہمیت دی ہے،  چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں کسی کو یہ حکم کرسکتا کہ وہ کسی (غیر اللہ) کو سجدہ کرے تو میں یقیناً عورت کو حکم کرتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے‘‘.  اس سے اندازا  ہوا کہ بیوی پر شوہر کے اتنے حقوق ہیں جس کی ادائیگی شکر سے وہ عاجز ہے،  نیز اس بات کی تاکید بھی ہے کہ شوہر کی اطاعت وفرماں برداری بیوی پر واجب ہے۔  (مستفاد از: مظاہر حق جدید ج3، ص:366)

وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لو كنت آمر أحداً أن يسجد لأحد، لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها. رواه الترمذي.

وعن أم سلمة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: أيما امرأة ماتت وزوجها عنها راض دخلت الجنة. رواه الترمذي". (کتاب النکاح ص: 681، ط: قدیمی)

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏۳۰ ؍‏ربیع الثانی‏؍ ۱۴۴۲ھ

‏15‏ ؍ دسمبر‏؍  2020ء