29 Jun, 2025 | 3 Muharram, 1447 AH

Question #: 3317

July 15, 2024

اسلام علیکم محترم مفتی صاحبان۔ او جی ڈی سی ایل ایک نیم سرکاری ادارہ ہے، جو اپنے ملازمین کو بلا سود مختلف نوعیت کے قرضے فراہم کرتا ہے۔ مثلا ہاؤس بلڈنگ، کنوینس لون اور میریج لون وغیرہ۔ ان تمام قرضہ جات میں اصل رقم کے علاوہ کچھ اضافی رقم پریمیم کے نام سے ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اور ادارہ اس اضافی رقم کو ایک فنڈ کے طور پر بیان کرتا ہے کہ اس اضافی رقم کو اپنے ایک بینک اکاونٹ میں جمع کرتا ہے اور اس اکاونٹ سے ادارہ کوئ فائدہ حاصل نہیں کرتا۔ بلکہ کسی مقروض ملازم کے فوت ہو جانے کی صورت میں ادارہ بقایا قرضہ اس اکاؤنٹ سے وصول کرتا ہے اور مقروض ملازم کے بقایا جات میں سے کوئ کٹوتی نہیں کرتا تاکہ مرحوم ملازم کے اہل خانہ پر کچھ بوجھ نہ آۓ۔ اور کمپنی کا موقف ہے کہ یہ اضافی رقم سود نہیں ، بلکہ ملازمین کی خیر خواہی اور متوفی مقروض ملازمین کی مدد کی غرض سے لی جاتی ہے۔ مہربانی فرما کر رہنمائ فرمائیں کہ یہ قرضہ لینا جائز ہے، اور اگر نہیں تو جو ملازمین قرضہ لے چکے ہیں اور اضافی رقم ادا کر رہے ہیں۔ ان کے لیے کیا حکم ہے۔ جزاک اللّٰه۔

Answer #: 3317

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ! محترم مفتی صاحبان۔ او جی ڈی سی ایل ایک نیم سرکاری ادارہ ہے، جو اپنے ملازمین کو بلا سود مختلف نوعیت کے قرضے فراہم کرتا ہے۔ مثلا ہاؤس بلڈنگ، کنوینس لون اور میریج لون وغیرہ۔ ان تمام قرضہ جات میں اصل رقم کے علاوہ کچھ اضافی رقم پریمیم کے نام سے ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے اور ادارہ اس اضافی رقم کو ایک فنڈ کے طور پر بیان کرتا ہے کہ اس اضافی رقم کو اپنے ایک بینک اکاونٹ میں جمع کرتا ہے اور اس اکاونٹ سے ادارہ کوئی فائدہ حاصل نہیں کرتا۔ بلکہ کسی مقروض ملازم کے فوت ہو جانے کی صورت میں ادارہ بقایا قرضہ اس اکاؤنٹ سے وصول کرتا ہے اور مقروض ملازم کے بقایا جات میں سے کوئی کٹوتی نہیں کرتا تاکہ مرحوم ملازم کے اہل خانہ پر کچھ بوجھ نہ آۓ۔ اور کمپنی کا موقف ہے کہ یہ اضافی رقم سود نہیں ، بلکہ ملازمین کی خیر خواہی اور متوفی مقروض ملازمین کی مدد کی غرض سے لی جاتی ہے۔ مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں کہ یہ قرضہ لینا جائز ہے، اور اگر نہیں تو جو ملازمین قرضہ لے چکے ہیں اور اضافی رقم ادا کر رہے ہیں۔ ان کے لیے کیا حکم ہے۔ جزاک الله۔

الجواب حامدا ومصلیا

صورتِ مسئولہ میں اگرچہ او جی ڈی سی ایل کی طرف سے دیے جانے والے قرضے ظاہری طور پر بلاسود کہلاتے ہیں، لیکن جب ادارہ اصل قرض کی رقم کے علاوہ پریمیم کے نام سے کچھ زائد رقم ملازم سے وصول کرتا ہے، تو شرعی نقطۂ نظر سے یہ زائد رقم "سود" (ربا) کے حکم میں آتی ہے۔کیونکہ شریعت میں قرض کے ساتھ کسی بھی مشروط زیادتی کو سود قرار دیا گیا ہے، چاہے وہ کسی خیرخواہی کے مقصد سے ہو،کسی فنڈ میں رکھی جائے،یا اس کا مصرف کسی مرحوم کے قرض کی ادائیگی ہو،اور خواہ اس کا نام "پریمیم" یا کوئی اور نرم لفظ ہی کیوں نہ رکھا جائے۔لہذایہ قرضہ لینا شرعاً جائز نہیں ،جن ملازمین نے ایسے قرضے لے رکھے ہیں اور اضافی رقم (پریمیم) ادا کر رہے ہیں،وہ اللہ تعالیٰ سے سچے دل سے توبہ کریں،اور آئندہ ایسے سودی قرضے لینےسے گریز  کریں۔

والله اعلم بالصواب

دارالافتاء ، ای معہد