Question #: 3356
November 17, 2024
Agar jihat e qibla ghalat yaad ho aur us jihat ko sahih qibla samajh kar namaz ada kar li baad me maloom hua k wo ghalat jihat thi to kya namaz ka iyada karna hoga ya wo namaz sahih hogi
Answer #: 3356
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اگر جہت قبلہ غلط یاد ہو اور اس جہت کو صحیح قبلہ سمجھ کر نماز ادا کر لی بعد میں معلوم ہوا کے وہ غلط جہت تھی تو کیا نماز کا اعادہ کرنا ہو گا یا وہ نماز صحیح ہوگی؟
الجواب حامدا ومصلیا
قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ رکھتا ہو اور قبلہ معلوم نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہاں موجود لوگوں سے قبلہ معلوم کرلے، ورنہ دیگر وسائل اور قرائن سے قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کرے، اور اگرمعلوم کرنے کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو تو ایسے شخص کو چاہیے کہ وہ غور و فکر کر کے جہتِ قبلہ معلوم کرنے کی کوشش کرے، اگر اس نے غور و فکر کر کے ایک جہت طے کر لی اور اس طرف رخ کر کے نماز شروع کر دی اس کے بعد اس کو نماز کے دوران پتا چلا کہ اس کا رخ قبلہ کی طرف نہیں ہے اور قبلہ کسی دوسری طرف ہے تو اس کے لیےحکم یہ ہے کہ نماز کے دوران ہی اپنا رخ صحیح کر لے اور اسی نماز کو پورا کر لے، نئے سرے سے نماز شروع کرنا ضروری نہیں، اور ایسا کرنے سے اس کی نماز فاسد نہیں ہو گی۔
البتہ اگر ایسے شخص نے غور و فکر نہیں کیا اور اس کے بغیر ہی نماز کسی ایک رخ پر شروع کر دی تو اس کی نماز ابتدا ہی سے درست نہیں ہوئی اور پھر دورانِ نماز صحیح قبلہ کا علم ہو بھی جائے تو یہ شخص اسی نماز کو مکمل (بنا)نہیں کرے گا، بلکہ نئے سرے سے نماز پڑھے گا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 119):
’’ فأما إذا صلى إلى جهة من الجهات بالتحري ثم ظهر خطؤه فإن كان قبل الفراغ من الصلاة استدار إلى القبلة، وأتم الصلاة؛ لما روي أن أهل قباء لما بلغهم نسخ القبلة إلى بيت المقدس استداروا كهيئتهم وأتموا صلاتهم، ولم يأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بالإعادة؛ ولأن الصلاة المؤداة إلى جهة التحري مؤداة إلى القبلة؛ لأنها هي القبلة حال الاشتباه، فلا معنى لوجوب الاستقبال‘‘.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 433):
’’(ويتحرى) هو بذل المجهود لنيل المقصود (عاجز عن معرفة القبلة) بما مر (فإن ظهر خطؤه لم يعد) لما مر (وإن علم به في صلاته أو تحول رأيه) ولو في سجود سهو (استدار وبنى)‘‘.
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 435):
’’(وإن شرع بلا تحر لم يجز وإن أصاب) لتركه فرض التحري إلا إذا علم إصابته بعد فراغه فلا يعيد اتفاقاً‘‘.
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 119):
’’وأما إذا شك ولم يتحر وصلى إلى جهة من الجهات... وأما إذا ظهر في وسط الصلاة روي عن أبي يوسف أنه يبني على صلاته؛ لما قلنا، وفي ظاهر الرواية: يستقبل‘‘.
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ