27 Apr, 2025 | 28 Shawwal, 1446 AH

Question #: 3273

January 15, 2024

السلام علیکم, حضرت کیا سٹاک مارکیٹ میں انویسٹ کرنا جائز ہے.

Answer #: 3273

الجواب حامدا ومصلیا
اسٹاک ایکسچینج میں شیئرز کا کاروبار درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1۔ جس کمپنی کے شیئرز خریدنا چاہتے ہیں، اس کا اصل کاروبار حلال ہو، اگر کمپنی کا کاروبا غیر شرعی ہو تو اس کے شیئرز کی خرید وفروخت جائز نہیں۔
2۔ اس کمپنی کا کاروبار واقعۃً شروع ہوچکا ہو اور اس کمپنی کی املاک وجود میں آچکے ہوں، مثلا ً: عمارت اور مشینری وغیرہ وجود میں آچکی ہوں اور نقد اثاثے صرف پلاننگ اور منصوبہ بندی تک محدود نہ ہوں۔
اگر کمپنی صرف منصوبہ بندی اور نقد اثاثوں تک محدود ہو اور کاروبار شروع نہ ہوا ہو تو شیئرز کو صرف ان کی اصل قیمت ( Face Value) پر خریدنا یا بیچنا جائز ہے، اس سے کم و بیش پر خریدنا اور بیچنا جائز نہیں۔
3۔ نفع و نقصان دونوں میں شرکت ہو، یعنی اگر کمپنی کو نفع ہو تو شیئرز کے خریدار بھی نفع میں شریک ہوں گے اور اگر نقصان ہو تو اپنے سرمائے کے تناسب سے نقصان میں بھی شریک ہوں گے۔
4۔ نفع فیصد کے اعتبار سے طے ہو، یعنی نفع کی ماہانہ یا سالانہ کوئی خاص رقم یقینی طور پر مقرر نہ ہو، بلکہ فیصد کے حساب سے نفع مقرر کیا گیا ہو، جو نفع ملے گا، اس میں سے اتنے فیصد کمپنی کا ہوگا اور اتنے فیصد شیئر ہولڈر میں تقسیم کیاجائے گا۔
5۔ شیئرز خریدنے میں یہ بھی ضروری ہے کہ کمپنی کا اصل کاروبار حلال ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ضمنی طور پر بھی کسی ناجائز کام میں ملوث نہ ہو ،  بصورت دیگر شئیرز خریدنے والا اس نیت سے خریدے کہ وہ کمپنی کو ناجائز اور حرام معاملات کرنے سے ہر طرح منع کریگا، تحریری طور پر بھی اور خصوصاً کمپنی کے سالانہ اجلاس (AGM) میں بھی یہ آواز اٹھائے گا کہ کمپنی ناجائز اور حرام معاملہ نہ کرے اور کم از کم ہمارا سرمایہ کسی حرام اور ناجائز کاروبار میں نہ لگائے۔
6۔ شق نمبر5 کے پیش نظر جب کمپنی سے سالانہ نفع وصول ہو تو شیئرز رکھنے والا اس کمپنی کی بیلنس شیٹ میں دیکھے کہ کمپنی نے اس ناجائز ضمنی معاملہ سے کتنے فیصد سرمایہ ناجائز کاروبار میں لگا کر نفع حاصل کیا ہے، پھر آمدنی کا اتنے فیصد حصہ اپنے حاصل شدہ نفع سے صدقہ کردے۔
7۔ شیئرز کی خریدفروخت کرنے میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ شیئرز خریدنے کے بعد شیئر ہولڈرز ان شیئرز پر قبضہ کرے، اس کے بعد ان کو فروخت کرے، شیئرز پر قبضہ کئے بغیر انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً درست نہیں، جس کی وضاحت درج ذیل ہے۔
شیئرز آگے فروخت کرنے میں قبضہ کے مسائل:
اسٹاک ایکسچینج میں ڈے ٹریڈنگ میں حاضر سودے کی جو صورت رائج ہے، وہ یہ ہے کہ حاضر سودے میں سودا ہوتے ہی اس کا اندراج فوراً ہی KAT میں ہوجاتا ہے، جو اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والے سودوں کا کمپیوٹرائز ریکارڈ ہوتا ہے، لیکن آج کل ہر سودے کے دو کاروباری دنوں کے بعد خریدار کو طے شدہ قیمت ادا کرنی ہوتی ہے اور بیچنے والے کو بیچے ہوئے، حصص کی ڈیلیوری دینی ہوتی ہے۔ ( جبکہ پہلے اس میں تین دن لگتے تھے ) جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں سی ڈی سی کے ذریعے خریدے گئے شیئرز خریدار کے نام منتقل کیے جاتے ہیں، اسٹاک ایکسچینج کی اصطلاح میں اس کو ڈیلیوری اور قبضہ کہا جاتا ہے۔ مذکورہ صورت کا شرعی حکم یہ ہے کہ جب تک خریدے گئے شیئرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ میں خریدار کے نام منتقل نہیں ہوجاتے، انہیں آگے فروخت کرنا شرعاً جائز نہیں، کیونکہ شرعاً کسی بھی چیز کو آگے بیچنے کے لیے اس پر قبضہ شرط ہے۔
خلاصہ یہ کہ حاضر سودے کی صورت میں بھی خریدے گئے شئیرز سی ڈی سی کے ذریعہ متعلقہ کمپنی کے ریکارڈ یعنی ڈیلیوری سے پہلے آگے بیچنا جائز نہیں ہیں۔
8۔ فارورڈ سیل (Forward Trading) یا فیوچر سیل (Future Trading ) کی جتنی صورتیں اسٹاک ایکسچینج میں رائج ہیں، وہ اپنی موجودہ شکل میں شرعا ناجائز ہیں۔ (جدید معیشت وتجارت)
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ