26 Apr, 2024 | 17 Shawwal, 1445 AH

Question #: 2989

July 16, 2022

Bap zinda h lakin bazorag h or taqreeban AJ 3040sal pahla warasat baton ko da di thi batay na khod sign kar k warasat li thi bap unpar tha lakin Bata janta tha bahnain choti thi ab bahnain apna gharon ma tang hn or wo bhaiyon sa warasat mangti hn lakin bhai nai data kiya bhaiyon ko Dani chahiya kiya agar bhai na da to bhaiyon ko guna ho ga ya bap ki pakar ho gi Elam to bhai rakhtay hn k bahnon k Haq Dana chahiya

Answer #: 2989

باپ زندہ ہے لیکن بزرگ ہے اور تقربا آج سے 30،40 سال  پہلے وراثت بیٹوں کو دے دی تھی بیٹے نے خود دستخط کر کے وراثت لی تھی باپ ان پڑھ  تھا لیکن بیٹا جانتا تھا بہنیں چھوٹی تھیں اب بہنیں اپنے گھروں میں تنگ ہیں اور وہ بھائیوں سے وراثت مانگتی ہیں لیکن بھائی نہیں دیتے کیا بھائیوں کو دینی چاہیے؟ کیا اگر بھائی نہ دیں تو بھائیوں کو گناہ ہوگا یا باپ کی پکڑ ہو گی علم تو بھائی رکھتے ہیں کہ بہنوں کا حق دینا چاہیے۔

الجواب حامدا ومصلیا

وراثت کی تقسیم مورث  کی موت پر موقوف ہوتی ہے، لہذا  زندگی میں والد یا والدہ جو کچھ اپنی اولاد کو دیتے ہیں اس کی حیثیت وراثت کی نہیں ہوتی، بلکہ اس کی شرعی حیثیت ہبہ (گفٹ) کی ہوتی ہے، اور ہبہ کے حوالے سے شریعتِ مطہرہ نے والد ین کو پابند کیا ہے کہ وہ اپنی اولاد میں برابری کریں، کسی معقول شرعی عذر کے بغیر کسی کو کم اور کسی کو زیادہ، یا کسی کو دینے اور کسی کو محروم رکھنے کا اختیار نہیں دیا ہے، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ دینے یا اولاد میں سے بعض کو دینے اور بعض کو محروم رکھنے سے آدمی گناہ گار ہوتا ہے،  لہذا صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے والد پر لازم ہے کہ وہ اپنی تمام اولاد میں برابری کرے۔  غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر اگرچہ بیٹوں کو قبضہ دے کر مالک بنادیا گیا ہے، لیکن ازروئے حدیث شریف اس تقسیم کو منسوخ کرکے منصفانہ طور پر  تقسیم  کرے۔

فی حاشية ابن عابدين - (4 / 444)

 حاصل ما ذكره في الرسالة المذكورة أنه ورد في الحديث أنه قال سووا بين أولادكم في العطية ولو كنت مؤثرا أحدا لآثرت النساء على الرجال  رواه سعيد في سننه

 وفي صحيح مسلم من حديث النعمان بن بشير تقوا الله وعدلوا في أولادكم فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة . وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض روى عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره . وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى . وقال محمد يعطى للذكر ضعف الأنثى.

 وفي التتارخانية معزيا إلى تتمة الفتاوى قال ذكر في الاستحسان في كتاب الوقف وينبغي للرجل أن يعدل بين أولاده في العطايا والعدل في ذلك التسوية بينهم في قول أبي يوسف وقد أخذ أبو يوسف حكم وجوب التسوية من الحديث وتبعه أعيان المجتهدين وأوجبوا التسوية بينهم وقالوا يكون آثما في التخصيص وفي التفضيل . وليس عند المحققين من أهل المذهب فريضة شرعية في باب الوقف إلا هذه بموجب الحديث المذكور والظاهر من حال المسلم اجتناب المكروه فلا تنصرف الفريضة الشرعية في باب الوقف إلا إلى التسوية والعرف لا يعارض النص

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ