23 Oct, 2024 | 19 Rabi Al-Akhar, 1446 AH

Question #: 3313

June 24, 2024

اسلام علیکم ورحمة الله وبركاته میں امریکا میں رہائش پذیرہوں. الحمد للّه میرا ایک بیٹا ہے جسکی عمر١٤ سال ہے. مزید اولاد کی خواہش ہے . (کثرت حیض جیسی بیماری کا شکار ہوں ، اس بیماری کی وجہ سے مجھے ایام کے دنوں میں بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے. ڈاکٹرز نے فی الحال مانع حمل ادویہ پر رکھا ہوا ہے، اور سرجری کا بولا ہے کہ بچہ دانی نکال دیں گے.) مزید اولاد کے لئے کئی مرتبہ علاج کرایا مگرمیں concieve نہیں کرسکی ، ڈاکٹر نے IVF اور IUI کا مشورہ بھی دیا ہے. شریعت کا کیا حکم ہے اس بارے میں؟ مگرہم دونوں میاں بیوی IUI اور IVF دونوں کے لئے تیار نہیں ہیں. یہاں کافروں کے درمیان رہتے ہووے جنکا کوئی دین ایمان نہیں ہے ، میں اور میرے شوہر کسی پر بھی بھروسہ اور اعتماد نہیں کرسکتے. بس یہی خدشہ ہے کے الله نہ کرے اگر sperms میں کوئی رد بدل ہو گیا تو یہ عمل زنا کے زمرے میں ہی شمار ہو گا نہ؟ یہاں تمام کام لیب میں ہوتا ہے اگر کسی صورت ایسا ممکن ہو جائے کہ پورا procedure ہماری نظروں کے سامنے ہو تو کوئی گنجائش نکلتی ہے کہ ہم اس کو جائز سمجھیں؟ برائے مہربانی رہنمائے فرمائیں .

Answer #: 3313

الجواب حامدا ومصلیا

اگر میاں بیوی کی فطری طریقے سے اولاد نہ ہوتی ہو، تو آئی وی ایف (ٹیسٹ ٹیوب بے بی) کا طریقہ بطورِ علاج اختیار کرنا  درج ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:

  1.  اِس شرط کے ساتھ کہ جرثومہ کسی غیر مرد کا نہ ہو، بلکہ شوہر ہی کا ہو اور اُسے بیوی کے بیضہ سے جوڑ کر بیوی ہی کے رحم میں رکھا جائے، کسی اور خاتون کے رحم میں نہ رکھا جائے۔
  2.  شوہر کی منی کا اخراج بیوی کے ذریعے سے ہو۔ بیوی کے ہاتھ کے ذریعہ  بھی منی کا اخراج کیا جاسکتا ہے۔ اپنے ہاتھ سے نہ ہو
  3.   بیوی کے رحم میں نطفہ پہنچانے کا عمل کسی لیڈی ڈاکٹر کے ذریعے انجام دیا جائے اور جتنا ستر کھولنے کی حاجت ہو، صرف اُس حد تک ستر کھولا جائے، باقی ستر کے حصے کو نہ کھولا جائے۔ اگر کسی لیڈی ڈاکٹر کا انتظام نہ ہوسکتا ہو اور نہ ہی یہ ممکن ہو کہ مرد ڈاکٹر کسی خاتون کو سکھا کر اُس کے ذریعے یہ عمل انجام دے تو پھر ایسی صورت میں مرد ڈاکٹر کے ذریعے بھی یہ عمل انجام دیا جاسکتا ہے، لیکن اِس میں پھر اِس بات کا اور زیادہ اہتمام ہو کہ ضرورت کی جگہ کے علاوہ باقی ستر کو مکمل ڈھانکا جائے، اور اِس کے ساتھ مرد ڈاکٹر کے ساتھ شوہر یا کوئی خاتون موجود ہوں تاکہ خلوت پیش نہ آئے۔

اِسی طرح مرد ڈاکٹر کو ایسی صورت میں اِس بات کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کہ وہ دورانِ علاج ستر کے حصے کی طرف کم سے کم نظر کرے اور ضرورت کے علاوہ اپنی نظر کو دوسری طرف رکھے۔

فی ردالمحتار: 6/371

"وإن كان في موضع الفرج، فينبغي أن يعلم امرأة تداويها، فإن لم توجد وخافوا عليها أن تهلك أو يصيبها وجع لا تحتمله يستروا منها كل شيء، إلا موضع العلة، ثم يداويها الرجل ويغض بصره ما استطاع، إلا عن موضع الجرح".

وفیه أیضا: 2/298

"ويجوز أن يستمني بيد زوجته وخادمته اهـ وسيذكر الشارح في الحدود عن الجوهرة أنه يكره ولعل المراد به كراهة التنزيه فلا ينافي قول المعراج يجوز تأمل وفي السراج إن أراد بذلك تسكين الشهوة المفرطة الشاغلة للقلب وكان عزبا لا زوجة له ولا أمة أو كان إلا أنه لا يقدر على الوصول إليها لعذر قال أبو الليث أرجو أن لا وبال عليه وأما إذا فعله لاستجلاب الشهوة فهو آثم اهـ"

وفي الفقه الإسلامي وأدلته للزحيلي (7/ 5099)

إن مجلس مجمع الفقه الإسلامي المنعقد في دورة مؤتمره الثالث بعمان عاصمة المملكة الأردنية الهاشمية من 8 - 13 صفر 1407 هـ/11 إلى 16 أكتوبر 1986 م.بعد استعراضه لموضوع التلقيح الصناعي «أطفال الأنابيب» وذلك بالاطلاع على البحوث المقدمة والاستماع لشرح الخبراء والأطباء.وبعد التداول.تبين للمجلس:أن طرق التلقيح الصناعي المعروفة في هذه الأيام هي سبع: الأولى: أن يجري تلقيح بين نطفة مأخوذة من زوج وبييضة مأخوذة من امرأة ليست زوجته ثم تزرع اللقيحة في رحم زوجته. الثانية: أن يجري التلقيح بين نطفة رجل غير الزوج وبييضة الزوجة ثم تزرع تلك اللقيحة في رحم الزوجة. الثالثة: أن يجري تلقيح خارجي بين بذرتي زوجين ثم تزرع اللقيحة في رحم امرأة متطوعة بحملها. الرابعة: أن يجري تلقيح خارجي بين بذرتي رجل أجنبي وبييضة امرأة أجنبية وتزرع اللقيحة في رحم الزوجة. الخامسة: أن يجري تلقيح خارجي بين بذرتي زوجين ثم تزرع اللقيحة في رحم الزوجة الأخرى. السادسة: أن تؤخذ نطفة من زوج وبييضة من زوجته ويتم التلقيح خارجياً ثم تزرع اللقيحة في رحم الزوجة. السابعة: أن تؤخذ بذرة الزوج وتحقن في الموضع المناسب من مهبل زوجته أو رحمها تلقيحاً داخلياً. وقرر: أن الطرق الخمسة الأولى كلها محرمة شرعاً وممنوعة منعاً باتاً لذاتها أو لما يترتب عليها من اختلاط الأنساب وضياع الأمومة وغير ذلك من المحاذير الشرعية. أما الطريقان السادس والسابع فقد رأى مجلس المجمع أنه لا حرج من اللجوء إليهما عند الحاجة مع التأكيد على ضرورة أخذ كل الاحتياطات اللازمة.والله أعلم.

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ