29 Mar, 2024 | 19 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2540

January 04, 2020

استاد جی بچے کو معلوم نہی میرا والد حقیقی کون ہے لیکن جنکو بچہ دیا تھا انیہوں نے پروش کی اور انکو ہی حقیقی والد سمجھتا ہے اور انکو اگر حقیقی والد کے بارے میں بتایا جائے تو بچہ نہی رہے گا ناں انکے پاس جہنوں نے پالا اب وہ حقیقی باپ انکو ہی سمجھتا ہے بچہ جنکو انکے ماں باپ نے دیا بے اولاد کو اب بتائے کیا کہیں اگر بچہ کو حقیقی باپ کے بارے بتائں تو وہ بچہ رہے گا نہی

Answer #: 2540

الجواب حامدا ومصلیا

اللہ تعالیٰ نےدنیاکی  ہر نعمت ہر انسان کوعطا نہیں کی، بلکہ اس میں فرق رکھا ہے، جس کو جو چاہا نعمت عطا کر دی، ہر آدمی کو اولاد کی نعمت کا میسر آنا ضروری نہیں، چناں چہ اگر کسی شخص کی کوئی اولاد نہ ہو  یا اولاد ہو پھر بھی وہ کسی کو  لے کر پالنا  چاہے تو اس طرح کسی بچے کو لے کر پال لینا جائز ہے، لیکن اس میں چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے: ایک بات تو یہ کہ لے پالک بچوں کی نسبت ان کے حقیقی والدین ہی کی طرف کی جائے، اس لیے کہ کسی کو منہ بولا بیٹا بنانے سے شرعاً وہ حقیقی بیٹا نہیں بن جاتا اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے اَحکام جاری ہوتے ہیں،  البتہ گود میں لینے والے کو  پرورش ، تعلیم وتربیت  اور ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملے گا،  جاہلیت کے زمانہ  میں یہ دستور تھا کہ لوگ لے پالک اور منہ بولی اولاد کو حقیقی اولاد کا درجہ دیتے تھے ، لیکن اسلام نے اس تصور ورواج کو ختم کرکے یہ اعلان کردیا کہ منہ بولی  اولاد حقیقی اولاد نہیں ہوسکتی، اور   لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔

لہذا صورت مسؤلہ میں  ولدیت کی جگہ اس کے اصلی والد کا نام لکھا جائے اور   اس بچہ کو کسی مناسب موقع پر مناسب   طریقہ سے سمجھا دینا چاہیے۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق  غَفَرَاللّٰہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ

‏08‏ جمادى الثانی‏، 1441ھ

‏03‏ فروری‏، 2020ء