21 Dec, 2024 | 19 Jumada Al-Akhirah, 1446 AH

Question #: 3171

April 25, 2023

Aik1 namaz k fidya kiya h wazahat farmain or agar qaza na karay fidya hi da da to kiya da saktay h or kiya qaza b karay to kasa karay

Answer #: 3171

الجواب حامدا ومصليا

نماز  کی فرضیت شرعاً بلوغت سے ہے، اس لیے نمازوں کی قضا کا حساب بلوغت سے لگایا  جائے گا ، اس سے پہلے کی قضا شرعاً لازم نہیں، اور بلوغت کا تعلق علاماتِ بلوغت ظا ہر ہونے سے ہے؛  اگر پندرہ سال کی عمر سے پہلے ہی بلوغت کی علامات ( مثلاً احتلام وغیرہ) میں سے کوئی علامت ظاہر ہوجائے تو اسی وقت سے نماز فرض ہو جاتی ہے ، لیکن اگر کوئی علامت ظاہر نہ ہو تو لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر بالغ سمجھے جائیں گے اور جس دن سولہواں سال شروع ہوگا اس دن سے ان پر نماز، روزہ وغیرہ فرض ہوگا۔

قضا نمازوں کو ادا کرنے  کا طریقہ یہ ہے کہ بالغ ہونے کے بعد سے لے کر اب تک آپ سے  جتنی نمازیں چھوٹ گئی ہیں اُن کاحساب کریں، اگر قضا نمازوں کی تعداد معلوم ومتعین ہو تو ترتیب سے ان نمازوں کو قضا کرنا چاہیے، اور اگر متعین طور پر قضاشدہ نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہواور  یقینی حساب بھی ممکن نہ ہو  (جیساکہ آپ کا مسئلہ ہے) تو غالب گمان کے مطابق ایک اندازا اور تخمینہ لگالیں اورجتنے سالوں یامہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیںاحتیاطاً اس تعداد سے کچھ بڑھا کر اُسے کہیں لکھ کر رکھ لیں، اس کے بعد فوت شدہ نمازیں قضا کرنا شروع کردیں،جو فرض نماز فوت ہوئی ہو اس کو قضا کرتے وقت اتنی ہی رکعتیں قضا کرنی ہوں گی جتنی فرض یا واجب رکعتیں اس نماز میں ہیں، مثلاً فجر کی قضا دو رکعت ، ظہر اور عصر کی چار، چار اور مغرب کی تین رکعتیں ہوں گی، عشاء کی نماز قضا کرتے ہوئے چار فرض اور تین وتر کی قضا کرنی ہوگی، قضا صرف فرض نمازوں اور وتر کی ہوتی ہے۔

قضا  نماز کی نیت  میں ضروری ہے کہ جس نماز کی قضا  پڑھی جا رہی ہے اس کی مکمل تعیین کی جائے، یعنی فلاں دن کی فلاں نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، مثلاً  پچھلے جمعہ کے دن کی فجر کی نماز کی قضا پڑھ رہا ہوں، البتہ اگر متعینہ طور پر قضا نماز کا دن اور وقت معلوم نہ ہو نے کیوجہ سے اس طرح متعین کرنا مشکل ہو تو اس طرح بھی نیت کی جاسکتی ہے کہ مثلاً جتنی فجر کی نمازیں میں نے قضا  کی ہیں ان میں سے پہلی  فجر کی نماز ادا کر رہا ہوں یا مثلاً جتنی ظہر  کی نمازیں قضا ہوئی ہیں ان میں سے پہلی ظہر  کی نماز ادا کر رہا ہوں، اسی طرح بقیہ نمازوں میں بھی نیت کریں ، اسی طرح پہلی کے بجائے اگر آخری کی نیت کرے تو بھی درست ہے۔

ایک دن کی تمام فوت شدہ نمازیں یا کئی دن کی فوت شدہ نمازیں ایک وقت میں پڑھ لیں، یہ بھی درست ہے۔ نیزایک آسان صورت فوت شدہ نمازوں کی ادائیگی کی یہ بھی ہے کہ ہر وقتی فرض نمازکے ساتھ اس وقت کی قضا نمازوں میں سے ایک پڑھ لیاکریں، (مثلاً: فجر کی وقتی فرض نماز ادا کرنے کے ساتھ قضا نمازوں میں سے فجر کی نماز بھی پڑھ لیں، ظہر کی وقتی نماز کے ساتھ ظہر کی ایک قضا نماز پڑھ لیا کریں)،  جتنے برس یاجتنے مہینوں کی نمازیں قضاہوئی ہیں اتنے سال یامہینوں تک اداکرتے رہیں، جتنی قضا نمازیں پڑھتے جائیں اُنہیں لکھے ہوئے ریکارڈ میں سے کاٹتے جائیں، اِس سے ان شاء اللہ مہینہ میں ایک مہینہ کی اور سال میں ایک سال کی قضا نمازوں کی ادائیگی بڑی آسانی کے ساتھ  ہوجائے گی ۔

 اگر کسی شخص پر قضا نمازوں کی ادائیگی باقی ہو تو اسے جلد از جلد قضا نمازیں ادا کر لینا چاہیے، لیکن اس کی وجہ سے سنتِ مؤکدہ ترک نہ کی جائیں، فجر سے پہلے کی دو سنتیں، ظہر سے پہلے کی چار سنتیں مؤکدہ ہیں، ان سے پہلے قضا نماز پڑھ لیں، اس کے بعد سنتیں ادا کریں، البتہ عصر اور عشاء سے پہلے چوں کہ سنتِ غیر مؤکدہ ہیں، اس لیے اگر اتنا وقت نہ ہو کہ سنتیں پڑھنے کے ساتھ قضا بھی ادا کرسکیں تو ان دو اوقات میں سنتِ غیر مؤکدہ کی بجائے قضا نماز پڑھ لیں تو کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح  ظہر، مغرب اور عشاء کے بعد کی دو، دو سنتیں اور عشاء کی تین وتر پڑھنا بھی لازمی ہے، ان کو ادا کرنے کے بعد اگر دیگر نوافل کی جگہ قضا نمازیں پڑھنا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

آپ کو چاہیے کہ آپ اپنے ورثاء کو یہ وصیت کر جائیں کہ میرے مرنے کے بعد میری لکھی ہوئی فوت شدہ نمازوں کا جائزہ لے لیا جائے، اگر  تمام فوت شدہ نمازوں کی قضا کرنے سے پہلے  میرا انتقال ہوجائے تو میرے ذمہ جتنی نمازیں باقی ہوں ان کا فدیہ میرے ترکہ میں سے ادا کردیا جائے، ایک نماز کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ہے اور روزانہ وتر کے ساتھ چھ نمازیں ہیں تو ایک دن کی نمازوں کے فدیے بھی چھ ہوئے، اور ایک صدقہ فطر تقریباً پونے دو کلو گندم یا آٹا یا اس کی قیمت ہے، وصیت کرنے کے ساتھ ساتھ آپ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ و استغفار بھی کرتے رہیں تو امید ہے کہ کمی بیشی کی صورت میں اللہ تعالیٰ درگزر فرمائیں گے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 153):

"(بلوغ الغلام بالاحتلام والإحبال والإنزال) والأصل هو الإنزال (والجارية بالاحتلام والحيض والحبل) ولم يذكر الإنزال صريحاً؛ لأنه قلما يعلم منها (فإن لم يوجد فيهما) شيء (فحتى يتم لكل منهما خمس عشرة سنةً، به يفتى) لقصر أعمار أهل زماننا  (وأدنى مدته له اثنتا عشرة سنةً ولها تسع سنين) هو المختار، كما في أحكام الصغار.

(قوله: به يفتى) هذا عندهما، وهو رواية عن الإمام، وبه قالت الأئمة الثلاثة، وعند الإمام حتى يتم له ثماني عشرة سنةً ولها سبع عشرة سنةً. (قوله: لقصر أعمار أهل زماننا) ولأن «ابن عمر - رضي الله تعالى عنهما - عرض على النبي صلى الله عليه وسلم يوم أحد وسنه أربعة عشر فرده، ثم يوم الخندق وسنه خمسة عشر فقبله»، ولأنها العادة الغالبة على أهل زماننا، وغيرهما احتياط فلا خلاف في الحقيقة والعادة إحدى الحجج الشرعية فيما لا نص فيه نص عليه الشمني وغيره، در منتقى".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 76):

"كثرت الفوائت نوى أول ظهر عليه أو آخره.

(قوله: كثرت الفوائت إلخ) مثاله: لو فاته صلاة الخميس والجمعة والسبت فإذا قضاها لا بد من التعيين؛ لأن فجر الخميس مثلاً غير فجر الجمعة، فإن أراد تسهيل الأمر، يقول: أول فجر مثلاً، فإنه إذا صلاه يصير ما يليه أولاً، أو يقول: آخر فجر، فإن ما قبله يصير آخراً، ولايضره عكس الترتيب؛ لسقوطه بكثرة الفوائت".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 72):

"(ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر) كالفطرة  (وكذا حكم الوتر).

 (قوله: نصف صاع من بر) أي أو من دقيقه أو سويقه، أو صاع تمر أو زبيب أو شعير أو قيمته، وهي أفضل عندنا لإسراعها بسد حاجة الفقير إمداد. ثم إن نصف الصاع ربع مد دمشقي من غير تكويم، بل قدر مسحه كما سنوضحه في زكاة الفطر (قوله: وكذا حكم الوتر)؛ لأنه فرض عملي عنده خلافاً لهما ط".

فقط واللہ اعلم