28 Mar, 2024 | 18 Ramadan, 1445 AH

Question #: 2995

July 22, 2022

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته میرے والدین میری بیوی کو پسند نہیں کرتے حالانکہ بہت پرہیزگار ہے۔ میں نے اپنی پسند سے اس سے شادی کی اس لیے وہ اسے پسند نہیں کرتے۔ میری بیوی اور والدین مجھے طلاق دینے پر مجبور کر رہے ہیں۔ میری بیوی مجھ سے محبت کرتی ہے لیکن وہ طلاق مانگ رہی ہے کیونکہ میرے والدین قبول نہیں کر رہے میں اکیلے اپنی بیوی کی دیکھ بھال کرنے کو تیار ہوں۔ میں اپنے والدین کا بھی خیال رکھوں گا۔ میں اپنی بیوی کو طلاق نہیں دینا چاہتا مجھے کیا کرنا چاہیے؟ اگر میرے والدین میری بیوی کو قبول نہیں کرتے تو کیا میں اپنے والدین کے ساتھ رابطے میں رہ کر الگ رہ سکتا ہوں؟

Answer #: 2995

الجواب حامدا ومصلیا

اگر  والدین  کسی  شرعی  وجہ  کے بغیر طلاق کا مطالبہ کریں تو ان کا بلاوجہ طلاق کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے  اور  بلا وجہ مطالبہ کرنے کی صورت میں بیوی کو طلاق دینا بھی درست نہیں ہے، البتہ اگر  بیوی ان کے  ساتھ  اچھا برتاؤ نہ کرتی ہو، ان کی گستاخی کرتی ہواور بدگوئی اور بے رخی سے پیش آتی ہو اور سمجھانے کے باوجود باز نہ آتی ہو تو پھر ان کے مطالبہ پر طلاق دینے کی گنجائش ہوگی،اور اگر بیوی میں ایسی کوئی بات نہیں تو اس صورت میں والدین کی بات  ماننا لازم نہیں ہے؛ اس لیے   کہ حلال کاموں میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ  بات طلاق دینا ہے؛ لہٰذا  حتی الامکان انتہائی سخت مجبوری کے بغیر طلاق دینے سے گریز کرنا چاہیے، نیز  جس طرح  اگر والدین حق پر ہوں تو والدین کی اطاعت واجب ہے، اسی طرح اگر بیوی حق پر ہو تو والدین کی اطاعت ظلم ہے۔ اور اسلام جس طرح والدین کی نافرمانی کو برداشت نہیں کرسکتا، اسی طرح ان کے حکم سے کسی پر ظلم کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتا۔

لہذا صورت مسؤلہ میں  آپ نے اپنی پسند سے شادی کی اس لیے آپ کے والدین آپ کی بیوی پسند نہیں کرتے اور اس وجہ سے وہ طلاق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کا یہ مطالبہ درست نہیں ہے اور آپ کے لیے  ان کا یہ مطالبہ  ماننا اور طلاق دینا  درست نہیں  ۔ اور  آپ یہ بھی کرسکتے ہیں  کہ قریب  کسی الگ گھر میں رہائش رکھیں اور  اپنے والدین کے ساتھ رابطہ میں رہیں اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئیں۔

فی مرقاة المفاتيح: (1/ 132):

"عن معاذ قال: «أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات، قال: " لاتشرك بالله شيئًا، وإن قتلت وحرقت، ولاتعقن والديك وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك. (ولاتعقن والديك) أي تخالفنهما، أو أحدهما فيما لم يكن معصية إذ لا طاعة لمخلوق في معصية الخالق ( «وإن أمراك أن تخرج من أهلك» ) أي: امرأتك أو جاريتك، أو عبدك بالطلاق أو البيع أو العتق أو غيرها (ومالك) : بالتصرف في مرضاتهما. قال ابن حجر: شرط للمبالغة باعتبار الأكمل أيضًا أي: لاتخالف واحدًا منهما، وإن غلا في شيء أمرك به، وإن كان فراق زوجة أو هبة مال، أما باعتبار أصل الجواز فلايلزمه طلاق زوجة أمراه بفراقها، وإن تأذيا ببقائها إيذاءً شديدًا؛ لأنه قد يحصل له ضرر بها، فلايكلفه لأجلهما؛ إذ من شأن شفقتهما أنهما لو تحققا ذلك لم يأمراه به فإلزامهما له مع ذلك حمق منهما، ولايلتفت إليه، وكذلك إخراج ماله".

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ