Question #: 2930
March 12, 2022
Answer #: 2930
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
- میرا سوال یہ ہے کہ کیا انسٹالمنٹ پہ کوئی چیز لینا جائز ہے کیو نکہ اس میں کچھ رقم زائد ادا کرنی ہوتی ہے۔
-
کریڈٹ کارڈ کا استعمال اور بعد میں ادا ئیگی جو اسٹالمنٹ پہ کر وادیتے ہیں اس پہ بھی زائد رقم لگتی ہے،
کیا یہ کرنا جائز ہے؟
الجواب حامدا ومصلیا
- نقد کے کے بجائے ادھار اور قسطوں پر زیادہ قیمت میں اشیاء کی خرید وفروخت اگر درج ذیل شرائط کے ساتھ ہو تو شرعا جائز ہے ، یہ سود میں داخل نہیں ہے ، شرائط یہ ہیں :
ا… خریدی جانے والی چیز مثلاً کار ، موٹر سائیکل وغیرہ متعین کر لی جائے اور سودا ہو جانے کے بعد وہ خریدار کے سپر د کر دی جائے۔
۲… اس کی ایک قیمت یعنی نقد یا قسطوں کی صورت میں سے کوئی ایک صورت طے کر کے فریقین اسی مجلس میں کسی ایک متعین قیمت پر متفق ہو جائیں۔
۳… ادائیگی کی مدت، اوقات اور قسطوں کی مقدار بھی متعین کرلی جائے۔
۴… قیمت متعین ہو جانے کے بعد ادائیگی میں تاخیر کی وجہ سے قیمت میں اضافہ یا جرمانہ کے نام پر زائد رقم وصول کرنے کی شرط نہ لگائی جائے۔
صورت مسئولہ میں آپ جس سے قسطوں پر خرید نا چاہتے ہیں اگروہ ان شرائط کو پورا کرتا ہے، تو اس سے قسطوں پر اشیاء کو خرید نا جائز ہے۔ نیز یہ بات یاد رہے کہ ادھار اور قسطوں پر بیچنے کی وجہ سے قیمت میں اضافہ کر ناسود نہیں، البتہ اگران شرائط کو پورا نہیں کیا جاتا تو پھر ایسے شخص سے قسطوں پر خرید ناجائز نہیں ہو گا۔
- کریڈٹ کارڈ کے حوالے سے حکم شرعی میں یہ تفصیل ہے کہ چونکہ کریڈٹ میں ابتداء ہی سے قرض پر سود کا معاہدہ ہوتا ہے اور ایک متعینہ مدت کے بعد سود چارج ہو نا شروع ہو جاتا ہے اس لیے عام حالات میں کریڈٹ کارڈ خرید نااور اسے استعمال کر ناشر عا درست نہیں ہے ، البتہ اگر کسی شخص کیلئے کریڈٹ کارڈ کا استعمال ناگزیر ہے جیسا کہ بعض ممالک میں کریڈٹ کارڈ ہی استعمال ہوتا ہے اور کریڈٹ کارڈ کے علاوہ لین دین میں غیر معمولی مشکلات پیش آتی ہیں تو اس صورت میں اس شخص کیلئے کریڈٹ کارڈ لینا اور اس کو استعمال کرنے کی اس شرط کے ساتھ گنجائش ہے کہ وہ متعینہ مدت سے پہلے پہلے تمام بلوں کی ادائیگی لازماکر دے تا کہ سود کی ادائیگی نہ کرنی پڑے۔
کریڈٹ کارڈ کا استعمال اور بعد میں بر وقت ادائیگی نہ کر نے پر اضافی رقم بلاشبہ سود ہے اور ناجائز ہے۔
في سنن الترمذي - (ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة)
عن أبي هريرة قال : نهى رسول الله صلى الله عليه و سلم عن بيعتين في بيعة. قال أبو عيسى حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم وقد فسر بعض أهل العلم قالوا بيعتين في بيعة أن يقول أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين ولا يفارقه على أحد البيعين فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على أحد منهما.
وفي المبسوط للسرخسي – (13 / 9 رشيديه)
وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا أو قال إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد
لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم......... وهذا إذا افترقا على هذا فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم وأتما العقد عليه فهو جائز لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد.
وفي الهداية - (3 / 21)
قال ويجوز البيع بثمن حال ومؤجل إذا كان الأجل معلوما.
وفي حوث في قضايا فقهية معاصرة - (1 /12)
أما الأئمة الأربعة وجمهور الفقهاء والمحدثون، فقد أجازوا البيع المؤجل بأكثر من سعر النقد، بشرط أن
يبعت العاقدان بأنه بيع مؤجل بأجل معلوم، وبثمن متفق عليه عند العقد، فأما إذا قال البائع: أبيعك نقدا بكذا ونسيئة بكذا، وافتراقا على ذلك، دون أن يتفقا على تحديد واحد من السعرين، فإن مثل هذا البيع لا يجوز، ولكن إذا عين العاقدان أحد الشقين في مجلس العقد، فالبيع جائز.
وفي الاشباه و النظائر : (1/226)
كل قرض جر نفعا فهو حرام.
وفي الفتاوي الهندية: (343/5)
آكل الربا وكاسب الحرام أهدى إليه أو أضافه وغالب ماله حرام لا يقبل، ولا يأكل ما لم يخبره أن ذلك المال أصله حلال ورثه أو استقرضه، وإن كان غالب ماله حلالا لا بأس بقبول هديته والأكل منها، كذا في الملتقط.
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ