Question #: 3196
June 09, 2023
Answer #: 3196
الجواب حامدا ومصلیا
دینِ اسلام میں ماں باپ پر اولاد کے حقوق میں سے ہے کہ جب بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا اچھا نام رکھیں ، اور پیدائش کے ساتویں دن یا چودھویں یا اکیسویں دن اس کی طرف سے عقیقہ کردیں اور اس کے بعد سرمنڈا دیں اوربالوں کے برابر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کردیں ، اور اس کو اچھی تعلیم و تربیت دیں ، یہ تمام ذمہ داری بچہ کے بالغ ہونے سے قبل ماں باپ کے ذمہ عائد ہوتی ہیں ، اور جب بالغ ہوکر شادی کے قابل ہو جائے تو اس کی شادی کردیں ، اور تاخیر نہ کریں ۔ اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹی شادی کرنا چاہتی ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور رشتہ بھی مل گیا ہے پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ولد له ولد فليحسن اسمه و أدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ و لم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه".
ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔
کنز العمال میں حدیثِ مبارک ہے:
"حق الولد علی والدہ أن یحسن اسمه و یزوجه إذا أدرك و یعلمه الکتاب".
”باپ پر بچے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کرائے اور اسے قرآن کا علم سکھائے“۔
لہذا صورت مسئولہ میں بلا کسی شرعی عذر کے والدین کا اولاد کی شادی میں تاخیر کرنا جائز نہیں خصوصا جبکہ اولاد کے گناہ میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہو۔ توجہ دلانے اور اصرار کے باوجود اگر والدین اس میں کوتاہی کررہے ہوں تو بہرحال آپ کو صبر کرنا چاہیے، اپنے آپ کو کسی ایسے کام یا پڑھائی میں مصروف رکھیں کہ جس سے ذہن زیادہ اس طرف متوجہ نہ ہو۔ اس کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی نفلی روزوں کا اہتمام بھی کریں اللہ تعالیٰ آسانی فرمائیں گے۔
والله اعلم بالصواب
احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ
دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ