05 May, 2024 | 26 Shawwal, 1445 AH

Question #: 3196

June 09, 2023

السلام عليكم ورحمة الله و بركاته مفتیان کرام، الله تعالى آپ حضرات كو حفظ و امان میں رکھیں۔ عرض يہ ہے کہ میری عمر تقریباً ۲۶ سال ہے اور میری پڑھائی بھی مکمل ہو چکی ہے الحمد لله، میرے والدین میرے نکاح میں دیری کر رہے ہیں، میرا رشتہ آۓ ہوۓ تقریباً چھ مہینے ہو گۓ ہیں، لڑکے والوں نے رشتہ قبول کر لیا ہے اور بات آگے بڑھانے کو کہا ہے، لیکن میرے گھر والے ابھی نکاح نہیں کرنا چاہتے اور کہتے ہیں کہ پہلے لڑکے کی نوکری لگ جائے اور وہ گھر بنالے اپنا، جہاں میں اور میرے گھر والے پہلے سے مقیم ہے، ان دو شرائط کی وجہ سے میرے نکاح میں دیری کر رہے ہیں،اور لڑکا فل وقت بیرون پڑھائی کرتے ہیں اور انکو واپس وہاں سے آنے میں کم ازکم چھ ماہ لگیں گے ۔ میں نے اپنی والدہ سے صاف کہ بھی دیا کی جلدی نکاح کردیں لیکن وہ مجھے بہت ڈاٹتی ہے اور کہتی ہے کہ ایک سال بعد کریں گے یا لڑکے کی نوکری کے بعد۔ دونوں فریقین ایک دوسرے کو پسند بھی کرتے ہیں۔ اور ہم دونوں کو گناہ میں مبتلا ہونے کا خوف ہے۔ نفس و شیطان ہمیں چھوٹے گناہوں میں مبتلا کر چکے ہیں، میں نے اپنی والدہ کو صاف صاف بتا بھی دیا کی میں اپنے نفس سے پریشان ہوں، میرا نکاح جلدی کر دیں، ایک سال رکنا ہمارے لئے ممکن نہیں،لیکن والدہ کہتی ہیں کہ جب تک وہ نوکری اور گھر نہیں بنا لیتے، ہم نہیں کریں گے، لڑکے کا سب کچھ اپنے مقیم شہر میں ہے، لیکن میرے گھر والے لڑکے کو اپنے شہر میں بسانا چاہتے ہیں، اور ہم دونوں جوان ہیں اور اپنے نفس سے بے حد مجبور، ہمیں اپنے دین و ایمان کا بہت خطرہ ہے، آپ سے درخواست ہے ہمارے لئے کوئی مشورہ عطا کریں کہ اس مسئلہ میں ہم کیا کریں؟ جواب شریعت و سنت کے دائرے میں عنایت فرمائے۔ اور جلد از جلد ۔ آپ سے دلی درخواست۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

Answer #: 3196

الجواب حامدا ومصلیا

دینِ اسلام میں ماں باپ پر اولاد کے حقوق میں سے  ہے  کہ جب بچہ پیدا ہو جائے تو اس کا اچھا نام رکھیں ، اور پیدائش کے ساتویں دن یا چودھویں یا اکیسویں دن اس کی طرف سے عقیقہ کردیں اور اس کے بعد سرمنڈا دیں اوربالوں کے برابر چاندی یا اس کی قیمت صدقہ کردیں ، اور اس کو اچھی تعلیم و تربیت دیں ، یہ تمام ذمہ داری بچہ کے بالغ ہونے سے قبل ماں باپ کے ذمہ عائد ہوتی ہیں ، اور جب بالغ  ہوکر شادی کے قابل ہو جائے تو اس کی شادی کردیں ، اور تاخیر نہ کریں ۔ اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹی شادی کرنا چاہتی ہے ورنہ گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے  اور رشتہ بھی مل گیا ہے پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔  چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

"و عن أبي سعيد و ابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ولد له ولد فليحسن اسمه و أدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ و لم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه".

ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو  اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔

کنز العمال میں حدیثِ  مبارک  ہے:

"حق الولد علی والدہ أن یحسن اسمه و یزوجه إذا أدرك و یعلمه الکتاب".

”باپ پر بچے کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور بالغ ہونے کے بعد اس کی شادی کرائے اور اسے قرآن کا علم سکھائے“۔

            لہذا صورت مسئولہ میں بلا کسی شرعی عذر کے والدین کا اولاد کی شادی میں تاخیر کرنا جائز نہیں خصوصا جبکہ اولاد کے گناہ میں ملوث ہونے کا اندیشہ ہو۔ توجہ دلانے اور اصرار کے باوجود اگر والدین اس میں کوتاہی کررہے ہوں تو بہرحال آپ کو صبر کرنا چاہیے، اپنے آپ کو کسی ایسے کام یا پڑھائی میں مصروف رکھیں کہ جس سے ذہن زیادہ اس طرف متوجہ نہ ہو۔ اس کے لیے دعا کے ساتھ ساتھ کبھی کبھی نفلی روزوں کا اہتمام بھی کریں اللہ تعالیٰ آسانی فرمائیں گے۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ