23 Oct, 2024 | 19 Rabi Al-Akhar, 1446 AH

Question #: 3324

August 20, 2024

I have always heard that a woman does not have any responsibility towards the parents of her husband and neither does his parents have any responsibilities towards their daughter in law. But a man has more responsibility towards his parents in law. Is it true? if partially true then to what extent?

Answer #: 3324

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

  1. میں نے ہمیشہ سنا ہے کہ عورت کے ذمے اپنے شوہر کے والدین کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے والدین کے ذمے اپنی بہو کی کوئی ذمہ داری ہوتی ہے۔
  2.  لیکن ایک مرد پر اپنے سسرال والوں کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کیا یہ سچ ہے؟ اگر یہ سچ ہے تو کس حد تک؟

الجواب حامدا ومصلیا

  1. میاں بیوی کا باہمی اور اسی طرح سسرالی رشتہ حسنِ اخلاق، حسنِ معاشرت اور ہم دردی و ایثار کے جذبہ سے ہی چل سکتا ہے، شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی کے حقوق میں توازن رکھا ہے اور حسنِ معاشرت کا حکم دے کر یہ واضح کیا ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ باہم اخلاقیات اور ایثار اور ہم دردی سے چلتا ہے، کچھ چیزیں بیوی کے ذمہ لازم نہیں کیں، اور کچھ شوہرکے ذمہ لازم نہیں کیں، لیکن حسنِ معاشرت کے باب میں دیانۃً اور اخلاقاً یہ چیزیں دونوں کی ایک دوسرے پر لازم ہیں۔

لہذا عورت کے ذمہ ساس کی خدمت اگرچہ شرعاً واجب نہیں ہے، لیکن اَخلاقی طورپر عورت کو اِس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اُس کے شوہر کی ماں ہے، جس طرح اَپنی ماں کی راحت کا خیال رکھتی ہے اِسی طرح شوہر کی ماں کی خدمت اور اُن کو راحت پہنچانا اُس کی اخلاقی ذمہ داری میں شامل ہے۔

لیکن اس میں یہ پہلو بھی پیشِ نظر ہونا چاہیے کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی خدمت پر یا ساس کا اپنی بہو کو خدمت پر مجبور کرنا اور اس پر ظلم جبر کرنا درست نہیں ہے، (بلکہ خود شوہر پر اپنے والدین کی خدمت کرنا ضروری ہے) یعنی دونوں طرف اعتدال کی ضرورت ہے، ساس کو چاہیے کہ وہ اپنی بہو کو بیٹی کی طرح سمجھے، اور اس کے دکھ درد میں شریک ہو، اور بہو کو چاہیے کہ وہ ساس کو اپنی ماں کی طرح سمجھے اور اس کی خدمت کو اپنے لیے سعادت سمجھے، اس سے گھریلو زندگی میں خوش گوار ماحول پیدا ہوگا، اور میاں بیوی کا ازدواجی رشتہ پائیدار اور مستحکم ہوگا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’بہشتی زیور‘‘ میں خواتین کو خطاب کرکے تحریر فرماتے ہیں:

’’جب تک ساس خسر زندہ رہیں ان کی خدمت کو، ان کی تابع داری کو فرض جانو، اور اسی میں اپنی عزت سمجھو، اور ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرو، ساس نندوں سے بگاڑ ہوجانے کی یہی جڑ ہے، خود سوچو کہ ماں باپ نے اسے پالا پوسا اور بڑھاپے میں اس آسرے پر اس کی شادی بیاہ کیا کہ ہم کو آرام ملے اور جب بہو آئی، ڈولے سے اترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑدیں ۔۔۔ جو کام ساس نندیں کرتی ہیں تو اس کے کرنے سے عار نہ کرو، تم خود بے کہے ان سے لے لو اور کردو، اس سے ان کے دلوں میں تمہاری محبت پیدا ہوجائے گی‘‘۔

(بہشتی زیور، حصہ چہارم، نکاح کا بیان، [باب: 31] (ص:47، 48) ط: تاج کمپنی کراچی)

الغرض سسرالی جھگڑوں میں فتویٰ لیکر قانونی پہلوؤں کی طرف جانے سے بہتر ہے کہ تعلقات کو بہتر بنایا جائے اور اس کے لیے حتی الوسع قربانی سے دریغ نہ کیا جائے۔

  1. ایک مرد پر اپنے سسرال والوں کی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔  یہ بات درست نہیں ہے۔

والله اعلم بالصواب

احقرمحمد ابوبکر صدیق غَفَرَاللہُ لَہٗ

دارالافتاء ، معہد الفقیر الاسلامی، جھنگ